اوبامہ عہد کے شاندار8 سال ،الوداع اوبامہ

امریکہ کے صدر براک اوبامہ اپنے عہدہ صدارت کی8 سال میعاد پوری کرکے اپنے عہدے سے وداعی لے رہے ہیں۔ صدر براک اوبامہ ایسے وقت میں جارہے ہیں جب امریکہ نے اپنی جمہوری تاریخ کے سب سے تلخ چناؤ میں اپنا نیا صدر چنا ہے۔ اوبامہ نے 8 نومبر 2008ء کو بطور پہلے افریقی امریکن شخص کے طور پر صدر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اوبامہ کو سال 2009ء کا نوبل امن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اوبامہ انتظامیہ کا سب سے بڑا کارنامہ رہا 2 مئی 2011ء کو پاکستان کے ایبٹ آباد میں ایک امریکی فوجیوں کے خصوصی دستے نے رات میں کارروائی کرکے خطرناک القاعدہ سرغنہ اسامہ بن لادن کو مارا۔ لمبے عرصے سے عراق میں پھنسی امریکی فوج کی واپسی کا راستہ اوبامہ نے 15 دسمبر 2011ء کو اس وقت کھولا جب انہوں نے عراقی جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ 9 نومبر 2012ء کو ابامہ نے ری پبلکن امیدوار مٹ رومینو کو ہرا کر دوبارہ چار سال کے لئے صدر بنے۔ 28 دسمبر 2014ء کو انہوں نے افغانستان میں فوج کی کارروائی ختم کی۔ جولائی 2015ء میں امریکہ نے ان کی قیادت میں ایران کو نیوکلیائی پروگراموں کی مرحلہ وار خاتمے کیلئے راضی کرلیا۔ اس پر لگے امریکی پابندیوں کو ہٹانے کا سمجھوتہ کیا۔ اس مہینے کے آخری دنوں میں اوبامہ نے کیوبا کے ساتھ 50 سال پرانے بگڑے رشتوں کو بحال کیا۔ کل ملا کر براک اوبامہ ایک کامیاب صدر رہے۔ جب 2008 ء میں اوبامہ پہلی بار امریکہ کے صدر چنے گئے تھے تو اسے تاریخ کی سب سے بڑی خلیج بھرنے کے واقعہ کے طور پر دیکھا گیا تھا کیونکہ پہلی بار ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بنا تھا اور جب وہ لگاتار دو عہد پورا کر صدر کا عہدہ چھوڑنے جارہے ہیں تو امریکہ میں جمہوری اقدار اور سماجی سروکاروں کو لیکر تشویش چھائی ہوئی ہے۔ اس لئے اوبامہ نے عہدہ چھوڑنے سے کچھ دن پہلے دی اپنی الوداعی تقریر میں مناسب ہی نہیں ان تشویشات کو سامنے رکھا۔ جمہوری اقدار کے تئیں عزم اور سماجی بھائی چارگی کو امریکہ کی پہچان بتایا اور اپنے جانشین ڈونلڈ ٹرمپ کو نصیحت دی کہ امریکی مسلمانوں سمیت دیش کی سبھی اقلیتوں کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ امریکی مسلم بھی اتنے ہی حب الوطن ہیں جتنے دیگر امریکی۔ براک اوبامہ بھارت کے دوست ہیں۔ ان کی وزیر اعظم نریندر مودی سے اچھی دوستی اور کیمسٹری رہی۔ امریکہ کے نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ان کے کٹر رویئے کی بحث چھڑی رہی۔ مانا جارہا ہے کہ ان کے صدر بننے پر دنیا میں تشدد کے حالات بنیں گے۔ ان کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی (اوبامہ ) کا انتظامیہ بہتر بتایا گیا تھا۔ لیکن تازہ اعدادو شمار کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اوبامہ انتظامیہ نے امریکہ بیحد جارحانہ رہا2016 میں ان کی حکومت میں مختلف ملکوں میں 26171 بم گرائے گئے۔ یہ اعدادو شمار سابق صدر جارج بش کے عہد سے 130 فیصدی زیادہ ہیں۔ سب سے زیادہ حملہ پاکستان، افغانستان ،لیبیا، یمن ، صومالیہ، عراق اور شام میں کئے گئے۔ ان ملکوں میں تو خانہ جنگی کے حالات ہیں۔ اس وقت138 دیشوں میں امریکی فوجیں موجود ہیں۔ پاکستان ،یمن، لیبیا، صومالیہ میں پچھلے 7 برسوں میں 600 شہری ان امریکی حملوں میں مارے گئے۔ دنیا میں ہتھیار سپلائی میں بھی امریکہ 31 فیصدی کی حصے داری سے اول نمبر پر ہے۔حالیہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کے فرق نے اوبامہ کے عہد کو اور زیادہ سراہنیے بنا دیا ہے ورنہ براک اوبامہ کا عہد ملا جلا ہی مانا جائے گا۔ خیر ! الوداع براک اوبامہ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟