حادثہ سے پربھو کے زیرو ٹالرینس مشن پر سوالیہ نشان

کانپور میں ہوئے خوفناک ریل حادثے نے ایک بار پھر ریلوے کی حادثے میں زیرو ٹالرینس پالیسی کی اصلیت اجاگر کردی ہے تو اندور۔ راجندر نگر ایکسپریس ریل حادثہ دل دہلانے والا ہے۔ 140 سے زیادہ لوگوں کی موت اور300 سے زیادہ لوگوں کے زخمی ہونے کا مطلب ہے کہ ریل کے زیادہ تر مسافر اس حادثے کے شکار ہوئے ہیں۔ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ جب کسی تیز رفتار سے چلتی ٹرین کے 14 ڈبے پٹری سے اتر کر الگ ہوجائیں اور اس طرح پچک جائیں کے پھنسے ہوئے مسافروں کو ویلڈنگ کٹرسے نکالا جائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حادثہ کتنا خوفناک تھا۔ بلٹ ٹرین ہائی اسپیڈ اور سیمی ہائی اسپیڈ ٹرینوں کی طرف تیزی سے آگے بڑھنے والے ریل منتری سریش پربھو کو اس حادثے نے ریلوے کے زمینی ڈھانچے کی حقیقت پر سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ریل منتری کے سامنے سب سی بڑی چنوتی تو یہ ہے کہ بے پٹری ہورہی ریل کو کیسے روکا جائے؟ زمینی سطح پر ایسی کونسی خامیاں ہیں جسے اولین ترجیح کی بنیادپر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حادثہ کس وجہ سے ہوا اس کا ٹھیک ٹھاک پتہ تو جانچ رپورٹ سے ہی چل پائے گا، لیکن ابتدائی طور پر یہ قیاس لگائے جارہے ہیں کہ پٹری میں دراڑآنے سے یہ حادثہ ہوا۔ حالانکہ حادثہ کی جگہ پر اس حادثے سے کچھ ہی منٹ پہلے اسی پٹری سے ایک اور ٹرین سامبرمتی ایکسپریس گزری تھی۔ اس حادثے کی ٹھوس وجہ فی الحال سامنے نہ ہونے کے باوجود دو ثبوت ایسے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ریل سفر کو محفوظ بنانے کے تئیں توجہ اب بھی کم ہے۔ایک تو یہ ہی کہ اندور پٹنہ ایکسپریس کے ڈبے اگر ایل ایچ بی کوچ ہوتے تو اسٹین لیس اسٹیل کے ہوتے اور حادثہ ہونے پر بھی اس کا اندرونی اثر بہت کم ہوتا تو زخمیوں کی تعداد اتنی نہ ہوتی۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ریل حادثات میں مرنے والوں کی تعداد معمولی ہوتی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ ایل ایچ بی کوچ ہے۔ ہمارے یہاں بہت سی ٹرینوں میں ایل ایچ بی کوچ ہے لیکن سبھی ٹرینوں میں ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلا ٹارگیٹ تو یہ ہونا چاہئے کہ سبھی ٹرینوں میں ایسے ایل ایچ بی کوچ لگیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی ریلوے کی کایا پلٹ کی بات کررہے ہیں اور بارے میں کام بھی ہورہا ہے لیکن ابھی دنیا کے بڑے دیشوں کے مقابلے میں حادثوں میں مرنے والوں کی تعداد ہمارے یہاں زیادہ ہے، کیوں ؟ اس پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے۔ عام انسانی بھول بڑے حادثات کا سبب بن جاتی ہے لیکن یہاں نہ تو ریلوں کے ٹکرانے کا واقعہ ہے اور نہ پٹریوں کے اکھڑنے کا اور نہ ہی بغیر گارڈ کراسنگ پر کسی دوسرے گاڑی سے ٹکرانے کا۔ ظاہر ہے اس حادثے میں ریلوے کی اندرونی خامیاں کہیں نہ کہیں اس حادثے کے لئے ذمہ دار ہیں۔ بھارت میں حادثات سے بڑی ٹریجڈی وقت پر اور صحیح طریقے سے راحت اور بچاؤ کام کا نہ ہونا رہتا ہے۔ اس معاملے میں یوپی کے وزیر اعظم اکھلیش و ریلوے اور انتظامیہ کی مستعدی سے بہت سی جانیں بچ گئی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟