کیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چناوی وعدوں پر قائم رہیں گے

امریکہ کے ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف اپنا صدارتی عہدہ سنبھالنے کی تیاری میں لگے ہیں تو دوسری طرف دیش کے ہی لوگ ان کے خلاف مظاہرے پر اترے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ٹرمپ اپنے ایجنڈے پر بھی کام کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ساتھ انہیں اپنی ساکھ اور دیش کو متحد رکھنے کی بھی چنوتی ہے۔ سالانہ ایک ڈالر تنخواہ لیکر لگاتار بغیر چھوٹی کے کام کرنے کی بات کہہ کر وہ اس طبقے پر بھی اپنی پکڑ بنانا چاہتے ہیں جو ان کی مخالفت کررہے ہیں۔ حالیہ وقت میں امریکہ کے اب تک کے سب سے تلخی بھرے چناؤ میں کامیاب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے صاف کردیا ہے کہ ناجائز امیگریشن ان کے لئے صرف چناوی اشو نہیں تھا بلکہ یہ ان کی ترجیحات میں ہے۔ ویسے بھی اپنی پوری چناؤ کمپین کے دوران ٹرمپ نے ناجائز تاریکین وطن کے اشو کو خاص طور سے اٹھایاتھا اور اس کی وجہ سے ان کو کافی نکتہ چینی بھی جھیلنی پڑی تھی۔ یہاں تک کہ غلط ثابت ہوچکے چناوی پنڈت اور میڈیا نے اسی وجہ سے ان کی ہار تک یقینی کردی تھی۔ ٹرمپ کی جیت کے لئے جس امریکی راشٹرواد کو بڑی وجہ مانا جارہا ہے اس میں تارکین وطن کے تئیں ناراضگی بھی شامل ہے۔ ٹرمپ نے میکسیکو سے وابستہ سرحد کی سکیورٹی کا اشو اٹھاتے ہوئے وہاں سے آنے والے ناجائز تارکین وطن کو نشانے پر لیا ہی تھا ان کا اشارہ ایسے لوگوں کی طرف تھا جن کی وجہ سے امریکی لوگوں کے مفادات متاثر ہورہے تھے۔ انہوں نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے اور خار دار تار لگانے کی بھی بات کہی۔ البتہ میکسیکو حکومت نے اس کے خرچ میں کسی طرح کی حصے داری نبھانے سے صاف منع کردیا ہے۔ سرکاری اندازہ ہے کہ امریکہ میں قریب 1 کروڑ 10 لاکھ تارکین وطن بغیر دستاویزات کے رہ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے قومی سکیورٹی مشیر جیسے انتہائی اہم عہدے کیلئے سابق لیفٹیننٹ جنرل مائیکل ٹی فلن کو دینے کی بھی پیشکش کی ہے۔ ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم کے سینئر افسر نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا مائیکل فلن ایک ریٹائرڈ خفیہ افسر ہیں جو مانتے ہیں کہ اسلامی دہشت گردی نے فوجی اور خارجہ پالیسی میں سب سے طاقتور کردار نبھاتے ہوئے دنیا کے سامنے وجود سے متعلق خطرہ پیدا کردیا ہے۔ 57 سالہ جنرل فلن ایک رٹائرڈ ڈیموکریٹ بھی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ چناؤ کمپین میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے چیف مشیرکار تھے۔ انہیں روس کا قریبی بھی مانا جاتا ہے اور فوج اور خارجہ پالیسی سے متعلق امور کا بھی تجربہ ہے۔ قابل غور ہے خود ٹرمپ بھی روس کے قریبی مانتے جاتے ہیں۔ اس لئے نئے صدر کا یہ فیصلہ ان کے ذریعے نئے سرے سے امریکی پالیسیوں کو بنانے کا اشارہ دیتا ہے۔ جنرل فلن نے ایک مشیرکے طور پر ہمیشہ ٹرمپ کو یہ ہی سمجھایا ہے کہ اسلامی دہشت گردوں کے خلاف امریکہ میں عالمی جنگ چل رہی ہے جس سے نمٹنے کیلئے کسی سے بھی سمجھوتہ کرنا پڑے تو کرنا چاہئے۔ چاہے وہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن ہی کیوں نہ ہوں؟ وہ مسلمانوں کی عبادت کو اپنے آپ میں مسئلے کی جڑ مانتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک سیاسی آئیڈیالوجی ہے۔ ادھر امریکی اوبامہ انتظامیہ شام کے صدر بشرالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے 4 سال سے باغیوں کی مدد کررہا ہے۔ اب صدر اسد نے کہا ہے کہ وہ نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر اپنے چناوی وعدوں پر قائم رہے تھے وہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں شام حکومت کی مدد کریں گے۔ امریکہ میں نیویارک ٹائمس سمیت میڈیا نے کہا تھا کہ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد شام میں اسد مخالفین کو مدد کرنا بند کردیں گے۔ بے چینی امریکہ کے اس طبقے میں ہے جسے لگ رہا ہے کہ آنے والے وقت میں ان کے یہاں ریسزم کی وہ ماڈل کی شکل دیکھنے کو مل سکتی ہے جو امریکہ کے جمہوری اقتدار کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے چناؤ نتیجے آنے کے ساتھ ہی کئی بڑے امریکی شہریوں میں لوگ جلوس نکال کر کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹرمپ کو اپنا صدر نہیں مانتے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟