نوٹ بندی پر سرکار کو دیا سپریم کورٹ نے جھٹکا

نوٹ بندی پر مرکزی سرکار کو پارلیمنٹ سے سڑکوں تک اور گاؤں سے عدالت تک جھٹکے ہی جھٹکے لگ رہے ہیں۔ عدالتیں بار بار مرکزی حکومت کو جھٹکے دے رہی ہیں۔ تازہ جھٹکا بدھوار کو اس وقت لگا جب سپریم کورٹ نے دیش کی مختلف ہائیکورٹس میں نوٹ بندی کے متعلق التوا حکم جاری کرنے کی مرکزی کی اپیل کو یہ کہہ کر نامنظور کردیا کہ ہوسکتا ہے کہ عوام ان میں فوری راحت چاہتی ہو۔ مرکزی سرکار نے دعوی کیا ہے کہ نوٹ بندی کامیاب ہے کیونکہ اب تک بینکوں میں 6 لاکھ کروڑ روپے کے 500-1000 کے نوٹ جمع ہوچکے ہیں۔ 30 دسمبر تک یہ تعداد 10 لاکھ کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے صاف کہا کہ مختلف عدالتوں میں دائر اپیلوں کو روکنا نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس ٹی۔ ایس۔ ٹھاکر کی رہنمائی والی تین نفری بنچ نے کہا کہ عدالتیں لوگوں کو فوراً راحت دے سکتی ہیں۔ بنچ کے ججوں ڈی وی آئی چندرچوڑ اور ایل ناگیشور راؤ نے اٹارنی جنرل مکل روہتگی سے کہا ہمیں لگتا ہے کہ آپ نے ضرور کچھ مناسب قدم اٹھائے ہوں گے؟ اب کیا پوزیشن ہے؟ آپ نے ابھی تک کتنی رقم اکھٹی کی ہے؟ اس کے بعد 6 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم ابھی تک بینکوں میں آچکی ہے۔ پیسے کے ڈیجیٹل لین دین میں کافی اچھال آیا ہے۔ انہوں نے کہا نوٹ بندی کا فیصلہ 70 سالوں سے جمع کالی کمائی کو ہٹانے کے مقصد سے لیا گیا ہے اور مرکزی سرکار حالات پر روز اور ہر گھنٹے نگرانی رکھ رہی ہے۔ بنچ نے معاملے کی اگلی سماعت کیلئے2 دسمبر کی تاریخ طے کردی ہے۔ عرضی گزاروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس وقت مرکزکی التوا کی اپیل کر اپنا جواب داخل کریں۔ قابل ذکر ہے عدالت عظمی نے 18 نومبر کو بینکوں و ڈاک گھروں کے باہر لمبی لمبی قطاتوں کو سنجیدگی کا اشو مانتے ہوئے مرکز کی اس عرضی پر اپنا اعتراض جتایا تھا جس میں یہ حکم دینے کی مانگ کی گئی تھی کہ8 نومبر کا نوٹیفکیشن کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر دیش میں کوئی دوسری عدالت غور نہ کرے۔ چیف جسٹس تارک سنگھ ٹھاکر اور انل دوے کی بنچ نے متعلقہ فریقین سے سبھی تفصیلات اور دوسرے نکتوں کے بارے میں تحریری دستاویز تیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سنگین اشو ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھئے عوام کس طرح کی مشکلات سے روبرو ہو رہی ہے۔ لوگوں کو ہائی کورٹ جانا ہی پڑے گا۔ اگر ہم ہائی کورٹ جانے کا اس کا متبادل بند کردیتے ہیں تو ہمیں مسئلے کی سنجیدگی کا کیسے پتہ چلے گا۔ عرضیوں میں الزام لگایا گیا ہے کہ مرکزی سرکار کے اچانک لئے گئے اس فیصلے نے بد امنی کی صورتحال پیدا کردی ہے اور عام جنتا پریشان ہورہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟