پھر کالیجیم اور حکومت میں ٹکراؤ

عدلیہ اور آئین سازیہ میں ٹکراؤ جاری ہے۔ یہ بھی ایسے وقت میں جب حکومت اور عدالتیں نوٹ بندی کے سبب آمنے سامنے آتی دکھائی دے رہے ہیں۔ تازہ معاملہ مختلف ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کا ہے۔ مختلف ہائی کورٹوں میں ججوں کی تقرری کے لئے کالیجیم کے ذریعے بھیجے گئے43 ناموں کو نامنظور کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے منظور کرنے سے منع کردیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کالیجیم نے پھر سے ان سبھی ناموں کو مرکزی حکومت کے پاس بھیجا ہے اور حکومت کو اس پر نظرثانی کرنے کے لئے کہا ہے۔ سپریم کورٹ کالیجیم کی صدارت کرنے والے چیف جسٹس ٹی۔ ایس ٹھاکر نے کہا ہم نے فائلوں کو دیکھ لیا ہے اور دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ لیا ہے کہ بنچ نے سرکار کو آگے کی کارروائی کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب سماعت سردیوں کی چھٹی کے بعد ہوگی۔ معلوم ہوکہ پچھلی سماعت میں اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے بنچ کو بتایا تھا کہ مختلف ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کو لیکر کالیجیم کے ذریعے کئے گئے 77 ناموں کی سفارش میں سے 34 کو ہری جھنڈی دے دی ہے جبکہ 43 سفارشوں کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کو لیکر سرکار نے 3 اگست کو میمورنڈم آف پروسیجر کا ڈرافٹ کالیجیم کو بھیج دیا تھا لیکن اب تک سرکار کو واپس نہیں ملا۔ عدالت لیفٹیننٹ کرنل انل ببوترا کے ذریعے داخل مفاد عامہ عرضی پر سماعت کررہی تھی۔ بڑی عدالت میں جج صاحبان کی تقرری کے لئے بنے کالیجیم کے ذریعے سرکار کی جانب سے واپس کئے گئے سبھی 43 ناموں کی دوبارہ سفارش کرنے کے بعد سرکار کے سامنے اس کے علاوہ اور کوئی متبادل دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ وہ ان ناموں کی منظوری فراہم کرے۔ کیونکہ کالیجیم کی دوبارہ سفارش سرکار کے لئے تعمیل کیلئے ضروری ہوتی ہے۔اس لئے امکان اسی بات کا ہے کہ ان ناموں کو مرکزی حکومت کی منظوری مل جائے۔ ججوں کی تقرریوں کا معاملہ لمبے عرصے سے سرکار اور عدلیہ کے بیچ کھینچ تان کا سبب بنا ہوا ہے۔ یہ کھینچ تان تب سے اور بڑھی دکھائی دے رہی ہے جب سے سپریم کورٹ نے جج صاحبان کی تقرری کے لئے بنائے گئے نیشنل جوڈیشیل اپوائنٹمنٹ کمیشن قانون کو غیر آئینی ٹھہرایا ہے۔ جو بھی ہو جج صاحبان کی کمی کو دور کرنا ملک کے مفاد میں ہوگا۔ اس سے دیش میں التوا مقدموں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ حالانکہ التوا مقدموں کا بوجھ بڑھ جانے کی واحد ایک وجہ کافی تعداد میں ججوں کا نہ ہونا ہی ہے ۔ بہتر ہے کہ اس جھگڑے کو جلد سلجھایا جائے۔ جس سے جنتا کو جلد انصاف مل سکے۔ ہم تو سبھی فریقین سے درخواست کریں گے کہ مل بیٹھ کر اس مسئلے کو سلجھائیں۔ آگے تبھی بڑھا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟