چین کی ہیکڑی

بین الاقوامی جوڈیشیری نے چین کو ایک بڑا جھٹکا دیتے ہوئے عدالت میں ساؤتھ چین سمندر میں چین کے دائرہ اختیارکو نامنظور کردیا ہے۔ اپنے سمندر کے ایک حصے پر فلپین کے دعوے کی توثیق کردی ہے۔ ساگر پر اپنے حق کو لیکر فلپن 2013ء میں ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت میں گیا تھا۔ منگلوار کو اسی پر تاریخی فیصلہ آیا ہے۔ جوڈیشیل اتھارٹی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایسا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملا جو ساؤتھ چین ساگر پر کبھی چینی حق کو ثابت کرے۔ چین ، فلپین اور دیگر ملکوں کے ساتھ اقوام متحدہ کے تحت تشکیل اس عدالت کے ذریعے تنازعہ سلجھانے کے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ اس لحاظ سے چین کو یہ حکم ماننا چاہئے۔ ساؤتھ چین سمندر پر حق کو لیکر دہائیوں سے تنازعہ ہے۔ کھربوں روپے مالیت کی چیزوں کے اس کاروباری راستے کو چین ہتیانا چاہتا ہے۔ وہ سمندر کے 85 فیصد حصے پر حق جتاتا ہے۔ اس کے چلتے فلپن، ویتنام ، ملیشیا، برونئی وغیرہ سے اس کا ٹکراؤ بنا ہوا ہے۔ ویسے چین کی ہٹ دھرمی ظاہر کرتی ہے کہ اس نے جوڈیشیری کی سماعت میں حصہ نہیں لیا۔ ساؤتھ چین ساگر بھارت کیلئے بھی اہم ہے۔ لک ایسٹ پالیسی کے خیال سے بھارت کیلئے سمندر میں آنا جانا ضروری ہے۔ ایک طرف تو ہمارا کاروبار متاثر ہوگا اور دوسری طرف سمندری سلامتی پر بھی خطرہ بڑھتا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ کئی ملکوں کے پاس ایسے نقشے ہیں جن کے مطابق سینکڑوں برسوں سے بھارت اور ملایا اور عرب کے تاجر اس علاقے سے گزرتے ہیں۔ ویتنام نے 1970ء میں اس علاقے میں تیل، گیس ہونے کا پتہ لگایا تھا۔ 
سروے اور اسٹڈی کیلئے او این جی سی سے معاہدہ بھی ہوا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اس کام میں لگا اثاثہ و اپنے لوگوں کی سلامتی کے لئے ہمیں اپنی بحریہ کے استعمال کا حق ہونا چاہئے۔ فیصلے پر چینی حکومت کا رد عمل ویسا ہی ہے جیسے کہ اس سے توقع تھی۔ چین نے نہ صرف اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا بلکہ عادت کے مطابق جارحانہ رویہ دکھاتے ہوئے دنیا کو دھمکانے کی کوشش بھی کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ چین ایک بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت کی شکل میں ابھرا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ وہ پوری دنیا پر اپنے ڈھونس جمائے۔ بین الاقوامی قاعدے قوانین کو ٹھینگا دکھائے۔ چین ساؤتھ چین سمندر پر اپنا یکطرفہ حق اور بالادستی قائم کرنے کے لئے ایک لمبے عرصے سے سرگرم ہے اور اس نے اس سمندری علاقے میں ایک چھوٹا سا جزیرہ بھی بنانا شروع کردیا ہے۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ چین کے اڑیل رویئے سے متاثر اس کے پڑوسی اور دیگر متاثر دیش آگے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں اور دنیا کے بڑے دیش کیسے یہ یقینی کریں گے کہ چین بین الاقوامی معاہدوں کا احترام کرے، لیکن اس کی ساکھ ایک غیر ذمہ دار، مغرور دیش کی شکل میں ضرور سامنے آرہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟