برہان کی موت پر نواز شریف اور حافظ سعید ساتھ ساتھ

جس طرح سے حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کے قتل پر کشمیر وادی میں تشدد بھڑکا ہوا ہے، اس سے صاف نظر آتا ہے کہ کشمیر میں عدم استحکام اور شورش کا ماحول بنانے کی کوشش ہمارا پڑوسی ملک پاکستان کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کسی بھی اشو پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور لشکر طیبہ کا چیف ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ حافظ سعید ایک زبان بولے ہیں۔ بھارت سے دوستی کا دم بھرنے والے ،دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے میاں نواز شریف کے چہرے سے شرافت کا نقاب اترگیا ہے۔ دونوں نے کشمیر میں دہشت کے چہرے برہان وانی کی موت پر ایک آواز ملاتے ہوئے افسوس جتایا۔ اتنا ہی نہیں پاکستانی وزارت خارجہ نے ہندوستانی ہائی کمشنر گوتم بمباولے کو طلب کر وانی کی موت پر تشویش جتائی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سروپ نے بتایا کہ پاکستان کے موقف سے دہشت گردی سے پاکستان کی وابستگی ثابت ہوتی ہے۔ آتنکی عناصر کے ساتھ ہمدردی سے صاف ہے کہ دہشت گردی کو درپردہ حمایت دینا ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔ دراصل حال میں لندن میں اوپن ہارڈ سرجری کراکر پاکستان لوٹے نواز شریف 10 لاکھ روپے کے انعامی آتنکی وانی کی موت پر اتنے دکھی ہوگئے کہ انہوں نے بھارت پر بے بنیاد الزام مڑھ دئے۔ پاکستان کے وزیر اعظم کے دفتر نے بیان جاری کر شریف کے حوالے سے کہا کہ کچلنے والے قدموں سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو ریفرنڈم کا اختیار سے روکا نہیں جاسکتا۔ نواز شریف سے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ اب اپنے حصے میں زبردستی قبضائے کشمیر جسے وہ آزاد کشمیر کہتے ہیں ، وہاں بھی ریفرنڈم کرانے کو تیار ہیں؟ اگر اقوام متحدہ کی ریفرنڈم کی وہ بات کررہے ہیں تو اس میں تو پورے کشمیر میں ریفرنڈم کی بات کہی گئی ہے؟ اس درمیان جماعت الدعوی اور لشکر طیبہ کے چیف حافظ سعید نے پاکستانی وزیر اعظم کے بیان پر سوال کرتے ہوئے کہا کہ اب شریف سرکار کو بین الاقوامی اسٹیج پر اس مسئلے کو اٹھانا چاہئے۔ حافظ سعید نے وانی کی حمایت میں ایتوار کوا یک ریلی بھی کی۔ اس کے ساتھ ریلی میں حزب المجاہدین کا چیف سید صلاح الدین بھی تھا۔ مقامی پولیس کے خلاف مورچہ کھولنا برہان وانی کے لئے مہنگا ثابت ہوا۔ برہان نے پچھلے مہینے ایک ویڈیو پیغام میں مقامی پولیس پر حملے کا اعلان کیا تھا اور دہشت گردی کا دور شروع ہونے کے بعد پہلی بار دہشت گردوں نے پولیس کو نشانہ بنایا ہے۔ کشمیر کے حالات پر نظر رکھنے والے سکیورٹی ماہرین اسے کافی اہم مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی پولیس کو نشانہ بنانے کے بعد دہشت گردوں کے لئے وادی میں ٹکنا آسان نہیں ہوگا۔ ایسا ہی پنجاب میں ہوا تھا۔ اب تک آتنکی صرف نیم فوجی فورس کو نشانہ بناتے تھے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟