بغیر وارننگ گرادینادیدہ دانستہ لاپرواہی

لاپروائی کی حد ہوگئی ہے۔ میرٹھ میں بنگلہ نمبر 210 بی کے آر آر مال کو چھاؤنی بورڈ کی ٹیم نے سنیچروار کو صبح سویرے بغیر کسی وارننگ کے گرادیا۔ عوام چلاتی رہی۔ عمارت کے اندر زندہ لوگ ہیں لیکن حکام نے ایک نہ سنی اور عمارت گرا دی گئی۔ عمارت گرانے کی کارروائی 13 منٹ چلی۔ اس دوران مال کے ملبے میں پانچ لوگ دب گئے جس کے بعد وہاں چیخ پکار مچ گئی۔ قریب دوگھنٹے تک چلے راحت و بچاؤ کے کام کے بعد چار لاشیں باہر نکالی گئیں جبکہ ایک کی حالت نازک ہے۔ بنگلہ نمبر210 بی گزشتہ22 برسوں سے متنازعہ بنا ہوا تھا۔ 3 جون کو وزارت دفاع نے میرٹھ چھاؤنی بورڈ کے سی ای او کو بنگلہ نمبر 210 بی کے کمپلیکس میں بنے آر آر مال کو مسمارکرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ گزشتہ19 جون کو مال کو توڑنے پہنچی کینٹ بورڈ کی ایک ٹیم کو مخالفت کے چلتے جانا پڑا۔ جس کے بعد سی ای او نے ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھ کر 9 جولائی کی کارروائی کے لئے فورس مانگی تھی۔ اس دوران جمعہ کی رات خبر پھیلنے پر بلڈر آنند پرکاش نے خود ہی مزدور لگا کر مال توڑنا شروع کردیا تھا۔ صبح اندھیرے 4.15 منٹ پر چھاؤنی بورڈ پولیس اور انتظامی افسران آر آر مال پہنچنے شروع ہوگئے۔ قریب سوا پانچ بجے جے سی بی مشینوں نے تین منزلہ مال کی دوسری منزل کے پلر کو توڑنا شروع کیا۔ 13 منٹ کے اندر اوپر کی دونوں منزلیں چرمراکر نیچے گر پڑیں۔ تبھی پتہ چلا کہ مال کے پچھلے حصے میں واقع شرما نان والے کی دوکان میں دیپک شرما ، ان کا لڑکا اور دوکان کے کاریگر سو رہے تھے۔ اتنا سنتے ہی چھاؤنی بورڈ کے افسر اور ملازم موقعہ سے فرار ہوگئے۔ جے سی بی ڈرائیور بھی مشن چھوڑ کر بھاگ گئے۔ لوگوں کی موت کے بعد عوام میں ناراضگی بڑھنا فطری ہی تھا۔ اس معاملے میں چھاؤنی بورڈ کے 6 افسران کے خلاف رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔ ایتوار کو پولیس نے چیف انجینئر انوج سنگھ کو کورٹ میں پیش کیا۔ عدالت نے انوج کو 14 دن کی جوڈیشیل حراست میں جیل بھیج دیا۔ میرٹھ میں سنیچر کو جو کچھ ہوا وہ سرکاری مشینری کی مکاری ،لاپروائی، پیسے کے آگے خود کے ضمیر کو ماردینا جیسا ہے۔ دو اسباب سے میرٹھ کا یہ واقعہ بے چینی اور نفرت دونوں پیدا کرتا ہے۔ پہلا تو یہ کہ بلڈنگ میں سو رہے لوگوں کو باہر نکالنے کے بجائے بلڈوزر چلادینا کہاں کی سمجھداری ہے؟ دوسرایہ آخر ناجائز طریقے سے شہر کے درمیان میں اتنی بڑی عمارت کیسے اور کس کی ملی بھگت سے بنی؟ اس ناجائز کارگزاری کے لئے جو بھی ذمہ دار ہیں وہ سبھی ان اموات کے لئے ذمہ دار ہیں۔ عمارت کو گرانے سے پہلے حکام کو اتنا تو دیکھنا چاہئے تھا کہ عمارت پوری طرح سے خالی ہے۔ افسران اتنے بے حس تھے کہ انہوں نے آس پاس بنے گھروں کو خالی کرنے تک کا پیغام یا وارننگ نہیں دی۔ اس طرح کے حادثے مستقبل میں نہ ہوں اس پر سبھی کوتوجہ دینی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟