وسنت وہار کانڈ میں ساڑھے تین سال بعد فاسٹ ٹریک عدالت

ساڑھے تین سال پرانے سرخیوں میں چھائے وسنت وہار اجتماعی بدفعلی کانڈ کی فاسٹ ٹریک عدالت میں سماعت کی امید جاگی ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ لیا ہے کہ اس کیس کی سماعت کے لئے عدالت طے میعاد سے زیادہ دیر تک بیٹھے گی۔ 18 جولائی سے ہر سنیچر اور جمعہ کو 2 بجے سے6 بجے تک اس کی سماعت کی جائے گی جبکہ عدالت کا وقت 4 بجے ختم ہوجاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کو اس بات کے اشارے دئے۔ پورے دیش کو دہلا دینے والے اس معاملے میں پھانسی کی سزا پا چکے چار قصوروار مکیش، پون، اکشے اور ونے کی اپیل سپریم کورٹ میں 2014 سے زیر التوا ہے۔ عدالت کے حکم پر فی الحال چاروں کی پھانسی پر روک لگی ہے۔ وہیں اہم ملزم ڈرائیور رام سنگھ تہاڑ جیل میں خودکشی کر چکا ہے۔ ایک نابالغ 3 سال اصلاح گھر میں سزا کاٹ کر رہا ہوچکا ہے۔ 16 دسمبر2012 ء کی رات چلتی بس میں درندوں نے 23 سالہ فیزیو تھیریپسٹ طالبا سے بدفعلی اور ظلم ڈھایا تھا ، جس کے بعد اس کی موت ہوگئی تھی۔ سارے دیش کی نظریں اس معاملے پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ متاثرہ سمیت تمام دیش کے شہریوں کو یہ درد ستاتا ہے کہ ابھی تک ان درندوں کو پھانسی پر کیوں نہیں لٹکایا گیا؟ واردات کا اہم ملزم تو اپنی سزا کاٹ کر باہر کھلا گھوم رہا ہے۔ دیش میں اس طرح کے گھناؤنا واقعات کا سیلاب سا آگیا ہے۔ ان درندوں کو کسی طرح کا نہ تو کوئی احساس ہے نہ کوئی ہچکچاہٹ۔ سپریم کورٹ اب پہل کی ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ نچلی عدالتیں بھی اس سے سبق لیں گی اور التوا میں پڑے ایسے گھناؤنے واقعات کے مقدموں میں جلد سے جلد فیصلہ ہوگا۔ اگر طے میعادمیں جرائم پیشہ کو سزا ملے تو اس سے خوف پیدا ہوگا۔ عدالتوں کو ایسے معاملوں میں ضمانت دینے پر بھی تھوڑی سختی برتنی ہوگی۔ ضمانت پر آسانی سے چھوٹ کر ایسے جرائم پیشہ پھرسے جرم کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ زیادہ تر واقعات میں متاثرہ کا ہاتھ تھامنے کیلئے کوئی آگے نہیں آتا۔
ایسے میں ان کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ بیشک ایسے واقعات میں نچلی عدالتوں نے سزا سنانے میں جرأت دکھائی ہے لیکن بعد میں کئی معاملے ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں جاکر اٹک جاتے ہیں اور انصاف ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو بھی اپنا سسٹم بہتر بنانا ہوگا۔ بیشک سارے معاملوں میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے لیکن کم سے کم گھناؤنے جرائم میں تو ایسا ہونا چاہئے۔ اگر ایسے التوا معاملوں میں جلدسے جلد فیصلہ آسکے گا اور سزا ہوگی تو اس سے نہ صرف سماج کا بھلا ہوگا بلکہ عدالتوں کے تئیں لوگوں کا نظریہ بھی بدلے گا۔ جرائم پیشہ میں خوف پیدا کرنا ضروری ہے اور یہ تبھی ہوگا جب ان کے ذریعے کئے گئے گھناؤنے فعل کے لئے جلد سے جلد سزا ملے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟