ای پی ایف سے ٹیکس واپسی کے فیصلے کا خیر مقدم ہے

مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے آخر کار امپلائز پروویڈنٹ فنڈ (ای پی ایف) کھاتے کی رقم نکالنے پر ٹیکس لگانے کی بجٹ تجویز واپس لیکر ٹیکس دہندہ ملازمین کو بڑی راحت دی ہے۔ ای پی ایف کے تحت آنے والے لاکھوں ملازمین میں سے اس سے بھی بے چینی ہونا لازمی تھی ۔ اچھی بات ہے کہ حکومت نے ان کے جذبات کی قدر کی اور اس تجویز کو واپس لے لیا۔ اس فیصلے کے پیچھے حکومت کی دلیل تھی کہ وہ ایسا کرکے ان لوگوں کو خوش خرم کرنا چاہتی ہے جو سروس میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس پیسے کا استعمال کرلیتے ہیں اور اس کے چلتے انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دلیل کو بھی بے بنیاد نہیں مانا جاسکتا۔ ایک تو ایسے فیصلے وسیع تبادلہ خیالات اور بحث کے بعد لئے جانے چاہئیں اور اس کے بارے میں فیصلے کا اعلان کرتے وقت پوری وضاحت سامنے آنی چاہئے۔ وزیر موصوف نے اس کے ساتھ ہی نیشنل پنشن اسکیم کے تحت جمع رقم40 فیصد حصے کو ٹیکس سے چھوٹ دینے کی تجویز برقرار رکھنے کی بات بھی کہی ہے۔ اس سے ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جو پنشن اسکیم کو مستقبل کی گارنٹی کے طور پر دیکھتے ہیں، حقیقت میں دیش میں بزرگوں کی سماجی سکیورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مگر وزیر خزانہ نے تنخواہ داروں کے لئے جو راستہ چنا تھا اس میں تو ملازمین کو فائدے کی جگہ نقصان ہی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ اعلان کے بعد سے ہی اس کی چوطرفہ مخالفت ہورہی تھی۔ ای پی ایف اسکیم تنخواہ داروں کی سماجی سکیورٹی کا سب سے زیادہ بھروسے مند ذریعہ ہے جس میں جمع رقم ان کے آڑے وقت میں کام آتی ہے۔ ای پی ایف میں ملازمین کا ساڑھے آٹھ لاکھ کروڑ روپے جمع ہیں مگر دوسری طرف سرکاری بینکوں کا ڈوبتا قرض ہی 4 لاکھ کروڑ سے زیادہ ہوگیا ہے اور بینکوں کی 1.14 لاکھ کروڑ روپے کی این پی اے املا ک کو معاف کرنے کا فیصلہ لے لیا ہے۔ اچھا تو یہ ہوگا کہ سرکار نئے اقتصادی وسائل اکٹھا کرنے کے لئے ایسے قرض کی وصولی کے لئے کوئی کارگر پہل کرے۔ اس سلسلے میں وزیر مالیات کا یہ کہنا اہم ہے کہ سرکار کا مقصد زیادہ محصول کمانا نہیں بلکہ لوگوں کو پنشن اسکیم سے جوڑنے کے لئے وسائل پیدا کرنا ہے۔بھارت جیسے دیش میں سماجی سکیورٹی کے انتظام بہت ہی قابل رحم ہیں۔ ای پی ایف یا پنشن یا چھٹی یافتہ ملازمین کا ایک واحد سہارا ہے ۔ کوشش انہیں محفوظ کرنے کی ہونی چاہئے نہ کی بزرگوں کو اس سے نقصان پہنچانے کی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟