قرض میں ڈوبے مالیہ ہوئے اڑن چھو

ہزاروں کروڑ روپے کے ڈیفالٹر صنعت کاروجے مالیہ کے ذریعے تمام وارننگ کے باوجود بینکوں کا قرض نہ چکانا جتنا حیران کرنے والا تھا اب ان کے چپ چاپ دیش چھوڑ کر بھاگ جانے کی معلومات اتنی ہی حیران کن ہے۔ وجے مالیہ کا نام جب بھی ذہن میں آتا ہے ایک ایسے شخص کی تصویر ابھرتی ہے جو آن ۔بان۔ شان کی زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے اور ہر طرح کے عیش و آرام اٹھانے میں ہی زندگی کی بہتری مانتا ہے۔ اسی مالیہ کے بارے میں سرکار نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وہ کہاں ہے، اس کی جانکاری نہیں ہے۔ ہندوستانی بینکنگ کی تاریخ میں ممکنہ طور پر یہ پہلی مثال ہے جب پوری مشینری ایک ڈیفالٹر کے سامنے تقریباً لاچار ہے۔ ایک وقت صنعت کاروں اور کاروباریوں کا آئیکون مانے جانے والے مالیہ اصلیتاً کنگال ہوچکے ہیں لیکن حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک بینکوں کے بیانوں ،قدموں انکم ٹیکس محکمہ، انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ وغیرہ سے آرہیں اطلاعات بتا رہی ہیں کہ ان کے ذریعے قرض کی قسط نہ چکانے کے باوجود بینکوں نے قرض دینا جاری رکھا۔ ان کی کنگ فشر ایئر لائنس پر ہی 7800 کروڑ روپے کا قرض ہے۔ انہیں کل9 ہزار کروڑ روپے کا بقایا دار مانا جارہا ہے۔ اس معاملے میں اہم سوال یہ ہے کہ کنگ فشر ایئر لائنس کو ہزاروں کروڑ روپے کا قرض منظور کرنے سے پہلے ان 17 بینکوں نے کمپنی کی مالی حالت اور منافع کے امکانات ہی ٹھوس پڑتال کی ضرورت کیوں نہیں سمجھی؟ اگر صحیح ڈھنگ سے پڑتال کی گئی تھی تو پڑتال کرنے والوں کی جوابدہی طے کرکے ان کے خلاف کارروائی یقینی بنانا ضروری ہے جو بینک دو چار ہزار روپے کے معمولی قرض کے لئے بھی گارنٹی یا گروی رکھنے کے لئے کچھ سکیورٹی مانگتے ہیں ان کا ہزاروں کروڑ روپے خیرات کی طرح منظور کردینا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایک طرف کنگ فشر کمپنی دم توڑتی رہی، اس کے ملازمین مہینوں سے بقایا تنخواہ کوترستے رہے تو دوسری طرف مالیہ اپنی عالیشان کشتیوں میں خوبصورت ماڈلوں کے ساتھ فوٹو کھنچواتے، موج مستی کرتے نظر آتے رہے۔ اس سب سے بینک افسران اور ان کے اکاؤنٹ آفیسر آنکھیں کیوں بند کئے رہے؟ قرض دینے کے قواعد و ضوابط کی تعمیل نہیں ہوئی ۔ یہ صاف ہے کہ مالیہ کو اس کے لئے سیاسی سرپرستی ضرور حاصل تھی۔بغیر سیاسی سرپرستی کے اتنابڑا قرض نہیں مل سکتا۔ بینکوں کے نجی کرن کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ بھی دی جاتی تھی کہ ان کے کرتا دھرتا اپنے لوگوں کو قرض دیتے ہیں لیکن بینکوں کے نیشنلائزیشن کو ساڑھے چار دہائیاں گزر چکی ہیں اس کے بعد جب لوگوں نے اپنے نیشنلائز ہوئی معیشت کو چونا لگانے کا کام جاری ہے تب بینکوں کے انتظام میں بہتری کے بارے میں سوچنا ہی ہوگا۔ صرف بینکنگ سسٹم ہی نہیں وجے مالیہ کی فراری بتاتی ہے کہ ٹھیک انہی حالات میں آئی پی ایل کے سابق کمشنر للت مودی کے بیرون ملک بھاگ جانے کے معاملے سے بھی سرکار نے کوئی سبق نہیں لیا۔ مالیہ کے بیرون ملک چلے جانے کے اندیشے کے باوجود ٹریبیونل نے بھی حیرت انگیز طریقے سے مارچ کے آخرمیں اس معاملے کی سماعت کی تاریخ رکھنا بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ کنگ آف گڈٹائمس کے اچھے دن تو بہت پہلے ہی ختم ہوگئے تھے لیکن جب تک مالیہ کو جان بوجھ کر کئے گئے کارناموں کے لئے پکڑا اور سزا نہیں دی جاتی تب تک ہمارا پورا نظام بھی اپنے بے اثر ہونے کے غم سے شاید ہی نکال سکے۔ آخرمیں سبرت رائے ، وجے مالیہ کی کہانی ایک جیسی ہے دونوں اپنی عالیشان اور مہنگی لائف اسٹائل کی وجہ سے سرخیوں میں رہے اسپورٹس، ایویایشن اور ہوٹل کاروبار میں دونوں کی خاصی دلچسپی لیکن دونوں کے بزنس کرنے کے طور طریقوں پر سوالیہ نشان۔ دونوں ہی بیحد مہنگی پارٹیاں دینے اور سیلبریٹیز کو اکٹھا کرنے، مہمانوں کے لئے ایئر لائنس کا استعمال کرنے کے لئے مشہور تھے۔ فی الحال دونوں کا برا دور چل رہا ہے۔ رائے نے 1978 میں ’’سہارا‘‘ قائم کیا تھا تو مالیہ نے1983 میں ’’مووی گروپ‘‘ سنبھالی۔ فرق اتنا ہی ہے کہ رائے نے این بی ایف سی بزنس سے دولت کمائی تو مالیہ نے شراب کنگ کا درجہ حاصل کیا۔ شراب پینے سے بہتوں کو تباہ ہوتے دیکھا جاتا ہے لیکن شاید شراب بنانے والے کی پہلی بار تباہی دیکھ رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟