وزیر اعظم نے دئے پارلیمنٹ کیلئے 5 اہم سجھاؤ

راشٹرپتی کے ایڈریس پر بحث کے دوران کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی نے بدھوار کو مرکزی سرکار اور وزیر اعظم نریندر مودی کی جم کر کھنچائی کی تھی۔ ایسا کرکے انہوں نے سب کی توجہ اپنی طرف راغب کرلی۔ ان کے حمایتیوں نے راہل کی تعریف میں جھنڈے گاڑھ دئے۔پھر آئی باری وزیر اعظم کی۔اگلے دن یعنی جمعرات کو نریندر مودی پوری لے میں دکھائی دئے۔ پورے ایک گھنٹہ 30 منٹ کی اپنی تقریر میں انہوں نے کانگریس کی جم کر بخیاں تو ادھیڑی ہیں وہیں خود پارٹی کے ساتھ ہی باقی اپوزیشن پارٹیوں کو بھی ایوان میں ہنگامہ کرنے کے بجائے دیش کے مفاد میں کچھ کرنے کی نصیحت دی تھی۔ کیونکہ ایک دن پہلے راہل گاندھی سرکار کی پالیسیوں پر حملہ آور تھے لہٰذا مودی نے ایک ایک نکتہ پر موثر جواب دیا۔ مثالوں کے ذریعے ایوان کو بتایا کہ پارلیمنٹ کا چلنا کتنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے لئے پانچ ایم تجاویز بھی رکھیں۔پہلی کیا ہم طے کرسکتے ہیں کہ 8 مارچ کو مہلا دوس پر ایوان کے اندر صرف مہلا ایم پی ہی بولیں۔ دوسری: کیوں نہ ہفتے میں ایک دن صرف پہلی بار چن کر آئے ممبران پارلیمنٹ کو ہی بولنے کا موقعہ دیا جائے۔ تیسری: کسی سنیچر ہم اقوام متحدہ کے ٹکاؤ ڈیولپمنٹ نشانے پر سیاست سے اوپر اٹھ کر بحث کر سکتے ہیں۔ چوتھی: پانی ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ہے اپنی اس سماجی ذمہ داری پر بھی ہم ایوان میں بحث کرسکتے ہیں۔ پانچویں : ابتدائی تعلیم کا معیار بہتر بنانے کی بات کریں۔ اگر ہم اپنے بچوں پر توجہ نہیں دیں گے تو کیا کریں گے؟ انہوں نے ایوان میں اپیل بھی کی کہ اس سرکار میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے جو اپوزیشن کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ میں نیا ہوں آپ تجربہ کار ہیں، مجھے آپ کے تجربے سے نصیحت لینے کی ضرورت ہے۔ سرکاریں آئیں گی جائیں گی۔ آئیے کندھے سے کندھا ملا کرکام کریں۔راہل کے اس الزام پر بھی کہ وزیر اعظم سے جب وزرا اور بھاجپا ایم پی ڈرتے ہیں اور کچھ بولتے ہیں، مودی نے اس وقت کے سوویت یونین ڈکٹیٹر لیڈر جوزف اسٹالن سے وابستہ ایک پیرے کو سناتے ہوئے کانگریس لیڈر شپ پر وار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹالن کی موت کے بعد سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل بنے نکیتا کرچیف ایک بار پارٹی کی جنرل اسمبلی میں اسٹالن کو کافی برا بھلا کہہ رہے تھے جس پر ایوان میں بیٹھے کسی ممبر نے ان سے سوال پوچھا ،تب وہ کرچیف (کہاں تھے؟)لیکن کرچیف نے کہا ۔۔۔ کون ہے یہ؟ اور اس شخص کے سامنے آنے پر کرچیف نے کہا کہ آج آپ بول سکتے ہیں۔ تب نہیں بول سکتے تھے۔ مودی نے اس حوالے کو کانگریس لیڈر شپ پر پلٹ وار کرنے کے لئے استعمال کرتے ہوئے کہا، ہم سبھی لوگ پبلک زندگی میں جوابدہ ہیں اور کوئی بھی ہم سے سوال پوچھ سکتا ہے لیکن کچھ ہیں جن سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا اور نہ پوچھنے کی ہمت کرتا ہے اور جو پوچھتا ہے اس کا حشر کیا ہوتا ہے میں نے دیکھا ہے۔ یہ اصلیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ایوان کے ہر منٹ کی کارروائی پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اگر اس اسٹیج پر دیش بھر سے چن کر آئے عوامی نمائندوں کا برتاؤ پر وقار اور سنجیدہ نہیں ہے تو ہم جمہوریت کے سب سے مقدس مقام کا کس منہ سے گنگان کریں گے۔ وزیر اعظم کی تقریر اسی طرف اشارے پر مبنی تھی۔ اب یہ ایوان کے سبھی ممبروں پر ہے کہ پارٹی مفاد سے اوپراٹھ کر رقابت بھلا کر دیش کی ترقی کیلئے کچھ منٹ سوچیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟