دیش مخالف سرگرمیوں کے پنگو بنتے کچھ تعلیمی ادارے

آئی آئی ٹی بامبے کے ٹیچروں کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ اعلی تعلیم کے کچھ ادارے ایسی سرگرمیوں کی پناہ گاہ بن گئے ہیں جو دیش کے مفاد میں نہیں ہیں۔ اساتذہ کے اس گروپ نے صدر پرنب مکھرجی سے اپیل کی ہے کہ وہ طلبا کو کیمپس میں نظریاتی چلن کی جنگ سے متاثر نہ ہونا کا پیغام دیں۔60 ممبران کی یہ عرضداشت آئی آئی ٹی بامبے کے ہی اساتذہ کے ایک دوسرے گروپ کی طرف سے پچھلے دنوں ایک بیان جاری کرنے کے بعد آئی ہے۔ اس گروپ نے جو جے این یو تحریک چلانے والوں کے تئیں حمایت ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ سرکارکو ’’قومیت ‘‘کا مطلب تھونپنا نہیں چاہئے۔صدر کو لکھے خط میں ادارے کے 60 ممبران نے دعوی کیا ہے کہ جے این یو معاملہ ملک کے مفاد کو کمزور کرتا ہے اور یہ اس بات کے کافی اشارے دیتا ہے کہ کچھ گروپ بڑے اداروں کے نوجوانوں کے دماغوں کا استعمال امن اور بھائی چارگی کی جگہ گالی گلوچ اور جارحیت والا ماحول بنانے کے لئے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ جے این یو کے علاوہ کئی دیگر اعلی تعلیمی ادارے ایسی سرگرمیوں کیلئے پناہ گاہ مانے جاتے ہیں جو کہ قومی مفاد میں نہیں ہے۔ کچھ بیحد کٹردماغ نوجوان خود کو تعلیمی اداروں کے لئے خوشگوار ماحول دستیاب کرانے والی سرگرمیوں میں لگانے کے بجائے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ایسی سرگرمیوں میں شامل کر لیتے ہیں جو تعلیمی ماحول کو بگاڑ دیتی ہیں۔ خط میں لکھا ہے کہ ہم آپ سے مودبانہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ ہمارے دیش کے کٹر ذہن نوجوان سے اپیل کریں اور کہیں کہ وہ نظریاتی لڑائی میں نہ پڑیں اور نہ ہی ان سے متاثر ہوں۔ جے این یو تنازع ملک کے مفاد کو نظر انداز کرتا ہے اور اس طرف اشارہ دیتا ہے کہ کچھ گروپ کڑواہٹ اور ماحول خراب کرنے کے لئے نوجوانوں کے ذہن میں زہر گھول رہے ہیں۔ ان اداروں کے نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا وقت توانائی اور قومی وسائل برباد نہ کریں بلکہ سنجیدہ دانشوری کو بڑھاوا دینے کا کام کریں جو دیش کو آگے لے کر جائے۔ 20 فروری کو آئی آئی ٹی بامبے کے اساتذہ کے ایک طبقے نے مختلف تحقیقی اداروں میں سرکار کے زیادہ دخل اور عدم اتفاق اور اختلافات کو دبانے کیلئے اس کی مذمت کی تھی۔ ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ ہندوستانی ہونے کے کئی مطلب پر سرکار تانا شاہی نہیں چلا سکتی اور وہ راشٹرواد کے مطلب پر جن آدیش نہیں دے سکتی۔ جے این یو میں ہوئی نعرے بازی یقینی طور پر انتظامیہ یا بھارت سرکار کے ساتھ اختلافات کو ظاہر کرنے تک محدود نہیں رہی بلکہ صاف طور پر جموں و کشمیر کو الگ کرنے کی مانگ ہورہی تھی۔ اس کی وجہ تعلیمی سیکٹر میں بھاری کشیدگی پیدا ہوگئی۔ افضل گورو (پارلیمنٹ حملے کا قصوروار ) کو ملی موت کی سزا کو قتل کہہ کر مختلف گروپوں کی طرف سے نعرے لگائے گئے۔ ہماری عدلیہ ہماری سرکار اور بھارت کے صدر کے دفتر کی توہین کرکے ملک مخالف سرگرمیوں کی حمایت کے خفیہ مقاصد کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہم صاف الفاظ میں اس اظہار رائے کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم عزم کے ساتھ کہتے ہیں کہ بھارت کی سرداری اور اتحاد کا احترام ہر ہندوستانی کا پہلا فرض ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟