5 ریاستوں میں چناؤ کا اعلان نیتا پھر ووٹروں کے قدموں میں

پانچ ریاستوں آسام، مغربی بنگال، تاملناڈو، کیرل ،پڈوچیری میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج گیا ہے۔ جمعہ کو چناؤ کمیشن نے وہ تاریخیں اعلان کردیں جب ان پانچ ریاستوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ووٹنگ کا سلسلہ 4 اپریل سے شروع ہوگااور 19 مئی کو نتیجوں کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے دیش میں سبھی چناؤ کو کافی سنجیدگی سے لیا جانے لگا ہے یہاں تک کہ ضمنی چناؤ کو بھی۔ ان کا قومی سیاست پر بھلے ہی سیدھا اثر نہ پڑتا ہو لیکن ان کے نتیجوں سے سیاسی پارہ اور تیور ضرور بدل گئے ہیں۔ اسمبلی چناؤ کے اگلے دور میں ویسے تو دونوں بڑی قومی پارٹیوں بھاجپا یا کانگریس کا زیادہ کچھ داؤ پر نہیں لگا ہے۔ پھر بھی نتیجوں کا دیش کو گہری دلچسپی کے ساتھ انتظار ہوگا۔15 مہینے پہلے بہار میں ہارنے والی بھاجپا کا یوں تو ان ریاستوں میں کچھ خاص داؤ پر نہیں لیکن دیش میں وجود بتانے کے لئے زور ضرور لگائے گی۔ دہلی بہار کے صدمے سے نکالنے اور 2017 میں فروری میں یوپی ، پنجاب میں اقتدار پانے بچانے کے لئے بھاجپا کا مظاہرہ یہاں معنی رکھے گا۔ مرکز کی پردھان منتری مودی سرکار اور بھاجپا کے لئے پانچ ریاستوں کے یہ اسمبلی چناؤ ایک لٹمس ٹیسٹ بھی کئے جاسکتے ہیں۔ پارٹی ان چناؤ میں مودی لہر سماجی ذات پات تجزیئے،دیش بھگتی بنام ملکی بغاوت، مرکزی سرکار کی ساکھ کا امتحان کرے گی تاکہ سال بھر بعد ہونے والے اترپردیش کے چناؤ میں ایک پختہ حکمت عملی بنائی جا سکے۔ جہاں تک کانگریس کی بات ہے تو اس کے پاس 15 سال سے آسام ہے۔ کیرل میں اتحاد ہے باقی ریاستوں میں وہ اسی پوزیشن میں ہے جس میں پانچ ریاستوں میں بھاجپا ہے۔ مغربی بنگال میں 37 سال کے لیفٹ راج کو ختم کر 2011ء میں اقتدار سنبھالنے والی ممتا بنرجی کو اقتدار بچائے رکھنا ہوگا۔تاملناڈو میں اماں کا مقابلہ روایتی حریف کروناندھی سے ہے۔ کیرل میں کانگریس ضرور کسی آس کے سہارے ہے۔ بات آسام کی تو لوک سبھا میں 14 میں سے7 سیٹیں جیتنے والی بھاجپا کچھ پانے کی دوڑ میں دکھائی پڑتی ہے۔ 2001ء سے مسلسل یہاں کانگریس کا راج رہا ہے۔ پڈوچیری میں کانگریس کی سرکار ہے نہ بھاجپا کی۔ آسام میں بھاجپا نے آسام گن پریشد اور بوڈو لینڈ پیپلز فرنٹ سے تال میل کیا ہے۔ ریاست میں ترون گگوئی کی لیڈر شپ میں 15 سال اقتدار میں رہنے کے باوجود اقتدار مخالف رجحان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کانگریس نے سبھی سیٹوں پر اکیلے چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ریاست کی مسلم اکثریتی سیٹوں پر پکڑ بنانے والا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بھی 60 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار رہا ہے یعنی مقابلہ سہ رخی ہوگا جسے بھاجپا اپنے حق میں مان کر چل رہی ہے۔ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈرشپ والے لیفٹ فرنٹ کے لئے یہ زندگی اور موت کی لڑائی ہے۔اس کے سامنے تریپورہ کے علاوہ باقی دونوں گڑھ مغربی بنگال ،کیرل میں اقتدار میں واپسی کیلئے زبردست چیلنج ہے۔ جے این یو معاملے میں لیفٹ پارٹیوں کو نئی طاقت اور ایک نیا چہرہ ملا ہے کنہیا۔ اس کا استعمال لیفٹ پارٹیاں اس چناؤ میں خوب کریں گی۔ چناؤ پروگرام تقریباً ڈھائی مہینے لمبا چلنے والا ہے۔ پرامن و منصفانہ ووٹنگ کرانے کے لئے چناؤ کمیشن نے وسیع اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ توقع ہے کہ ہمیشہ کی طرح وہ اس کام میں پوری طرح کامیاب ہوں گے۔ ان چناؤسے یہ بھی پتہ چلے گا کہ ووٹر حالیہ ہلچلوں کس حد تک متاثر ہوئے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟