جموں وکشمیرمیں سرکار بنانے پر سسپنس گہرا ہوا

جموں و کشمیرمیں پچھلے ایک مہینے سے جاری سیاسی بے یقینی طویل المدت کی طرف بڑھتی نظرآرہی ہے۔ پی ڈی پی اور بھاجپا دونوں ہی نئی سرکار بنانے کیلئے گیند ایک دوسرے کے پالے میں ڈال رہے ہیں۔منگلوار کو جموں کے گورنر این این وورا نے پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی سے سرکار کی تشکیل پر بات چیت کی ہے۔ وورا سے ملاقات کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت میں محبوبہ نے کہا کہ اگر نئی حکومت کی تشکیل ہونی ہے تو اس ریاست میں اچھے ماحول اور حوصلہ افزا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مرحوم والد مفتی محمد سعید نے اپنے سیاسی کیریر کی پرواہ کئے بغیر اس امید کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اتحاد کیا تھا کہ مرکز جموں و کشمیر کو مشکل حالات سے باہر نکال سکے گا۔ مفتی کا پچھلی 7 جنوری کو انتقال ہوگیا تھا۔ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد پی ڈی پی نے ابھی تک اپنا اسمبلی پارٹی کانیتا تک نہیں چنا ہے۔پارٹی صدر محبوبہ کوہی نیا لیڈر چنا جانا ہے لیکن اس میں ہورہی تاخیر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ محبوبہ دراصل بھاجپا سے لمبی سودے بازی کررہی ہیں۔ بھاجپا کا خیال ہے کہ محبوبہ اپنے کیڈر کو خوش کرنے کے لئے بھاجپا سے ایسی شرطیں منوانا چاہ رہی ہے جو کم از کم پروگرام سے باہر ہیں اس درمیان بھاجپا نے بھی دیگر متبادل پر غور و خوض شروع کردیا ہے جس میں متبادل سرکار کے ساتھ نئے چناؤ بھی کرانا شامل ہے۔ ادھر نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ نے کہا کہ اگر پی ڈی پی سرکار بنانے کے لئے تیار نہیں ہے تو ریاست میں چناؤ ہونا چاہئے۔ کانگریس ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی کا کہنا ہے کہ پی ڈی پی اور بھاجپا جموں و کشمیر کے عوام کی جمہوری مینڈیٹ کو نظر انداز کررہی ہیں۔ انہیں حکومت کے لئے چنا گیا ہے ایک منٹ کی بھی دیری اچھی نہیں ہے۔ کشمیر کی 87 ممبری اسمبلی میں پی ڈی پی کے 27 ممبر ہیں جبکہ بھاجپا کے25 اور پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کے درمیان کسی طرح کا اتحاد ممکن نظر نہیں آتا۔ کانگریس چھوٹی پارٹیوں اور آزاد کے تعاون سے پی ڈی پی کی سرکار بنوانا تکنیکی طور سے بھلے ہی ممکن ہو لیکن برتاؤ میں یہ تقریباً ناممکن ہے۔ ایسے میں اگر ایک بنے بنائے اتحاد کو یوں لٹکا دیا جائے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ پی ڈی پی کی منشا حالات کو وسط مدتی چناؤ کی طرف موڑ نا چاہتی ہے۔ اگر محبوبہ ایک سال کے اندر دوبارہ چناؤ کے بارے میں سوچ رہی ہیں تو یہ مینڈیٹ سے دھوکہ ہے۔ محبوبہ سوچتی ہیں کہ مفتی صاحب کی موت سے انہیں ہمدردی ملے گی اور نئے چناؤ میں وہ شاید اکثریت پا جائیں؟ دوسری طرف اپنا خیال ہے کہ بھاجپا کو اس اتحاد سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے ، الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔ بھاجپا کا ووٹ بینک جموں کا ہے اور اس گٹھ بندھن میں جموں خطے کو نظر انداز کیا گیا ہے اگر دوبارہ چناؤ ہوتا ہے تو بھاجپا کو شاید اتنی سیٹیں نہ ملیں۔ بہتر ہوگا محبوبہ کو سرکار بنانے دیں اور بھاجپا سرکار میں شامل نہ ہو، باہر سے حمایت دے۔ اس طرح وہ ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار بھی نبھا سکتی ہے اور جموں علاقے کے مفادات کی حفاظت بھی کر سکتی ہے۔ اگر محبوبہ کانگریس کے ساتھ سرکار بنانے چاہتی ہے تو بھاجپا کو اسے روکنا نہیں چاہئے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ محبوبہ کو اس میں شبہ نہیں کہ کشمیری عوام ایک خاتون کو بطور وزیر اعلی قبول کرے یا نہیں؟ جو بھی ہو صوبے میں یہ بے یقینی کا دور ختم ہونا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟