بچوں کا سر چھوٹا کرنے والا خطرناک ’جیکا‘ وائرس

آدمی چاہے جتنی بھی کوشش کرلے لیکن اوپر والے کے قہر سے نہیں بچا جاسکتا۔ اب ایک نیاوائرس آگیا ہے جس کا نام ہے ’جیکا‘ وائرس۔ مچھر کے کاٹنے سے ہونے والا خطرناک انفیکشن ’جیکا‘ اب تک 40 لاکھ لوگوں کو اپنی زد میں لے چکا ہے۔ یہ وائرس بچوں کے دماغ کو ڈولپ ہونے سے روکتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے 1 فروری کو ہنگامی میٹنگ بلائی تھی۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے سائنسدانوں سے جیکا وائرس کے لئے ٹیکا تیارکرنے کی اپیل کی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹرجنرل مارگریڈ یون نے کہا جیکا وائرس خوفناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ میٹنگ میں اس مسئلے پر غور وخوض کیاگیا کہ کیا ’جیکا‘ کو ’ایبولا ‘کی طرح عالمی ایمرجنسی کی طرح لیا جانا چاہئے۔ سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوراً احتیاط نہیں برتی گئی تو’جیکا‘ وائرس ایک وبا کی شکل لے سکتا ہے۔یہ وائرس بھی افریقہ سے آیا ہے۔ سب سے پہلے برازیل میں 2015ء میں یہ وائرس پایا گیا تھا۔ ’جیکا‘ کے اثرات ہیں ہلکا بخار، جوڑوں اور سرمیں درد اور جسم میں چکتے ۔ اس وائرس سے بچوں کا دماغ پوری طرح سے ڈیولپ نہیں ہوپاتا۔ ’جیکا‘ ایڈیز مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ مچھر کینیڈا اور چلی کے علاوہ آس پاس کے ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ مچھروں سے بچنے کے لئے پورے جسم کو ڈھک کر رکھیں اور ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں۔ مچھروں کی پیداوار روکنے کیلئے اپنے گھر کے آس پاس گملے، بالٹی، کولر وغیرہ میں روز مرہ پانی نکال دیں۔ جیکا وائرس سے متاثرہ حاملہ خاتون ایسے بچوں کو جنم دیتی ہیں جن کا دماغ پوری طرح سے فروغ نہیں پاتا۔برازیل میں پچھلے کچھ عرصے سے چھوٹے سر والے بچے پیدا ہونے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں متاثرہ دیشوں میں لوگ اپنے گھر میں نئے مہمان کیلئے تیار نہیں ہورہے ہیں۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے حاملہ خاتون اور بچوں اور بزرگوں سے جیکا وائرس متاثرہ 14 دیشوں میں سفر نہ کرنے کی صلاح دی ہے۔آئی ایم اے نے جمعرات کو امریکہ کے سی ڈی سی (سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول) کے ذریعے جاری گائڈ لائنس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ صلاح دی ہے ۔ سی ڈی سی نے جن 14 دیشوں کا زکر کیا ہے ان میں برازیل، کولمبیا، ایلپ سلواڈور، وینزویلا، پنامہ، میکسیکو سمیت کئی دیشوں کوشامل کیا گیا ہے۔ برازیل نے اپنے پڑوسیوں سے جیکا وائرس سے لڑنے کے لئے متحدہونے کی اپیل کی ہے وہیں ایئرلائنز خطے کے لئے اڑان بھرنے سے ڈر رہی ہیں۔ حاملہ خاتون کا کرایہ واپس کرنے کی پیش کش کی ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے امریکہ اور یوروپ سے آنے والے مسافر زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ دہلی میں بھلے ہی بڑے بڑے ہسپتالوں کا کہنا ہے کہ اس وائرس کی پہچان کیلئے ابھی ہمارے پاس کوئی سسٹم نہیں ہے۔ بھارت کو بھی اس سے لڑنے کی تیاری کر لینی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟