صرف دہشت گرداور ملکی بغاوت معاملوں میں موت کی سزا کی سفارش

پھانسی کی سزا کے معاملے میں آئینی کمیشن کی سفارش اس بحث کو لیکر اس حل کی طرف ہم جا سکتے ہیں جو محض اپنے ہی دیش میں ہی نہیں دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی چھڑی ہوئی ہے۔ سوال ہے’’ پھانسی دینے کی سزا‘‘؟ یہ کب دی جائے، کس کو دی جائے؟ آئینی کمیشن نے جو سفارش کی ہے اس کے مطابق صرف دہشت گردی اور ملکی بغاوت کے معاملوں میں پھانسی کی سزا دی جانے کی پیروی کی ہے۔ کمیشن کے چیئرمین جسٹس اے پی شاہ کا کہنا ہے کہ کمیشن کے9 میں سے6 ممبران رپورٹ سے متفق ہیں۔ 3 غیر متفق ممبران میں دو سرکار کے نمائندے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا اصول ہمارے آئین کے بنیادی جذبے کے منافی ہے۔بدلے کے جذبے سے جوڈیشیری نہیں چل سکتی۔ رپورٹ اس اشو پر مرکوز ہے کہ ہندوستان میں موت کی سزا ہونی چاہئے یا نہیں؟ رپورٹ کی ایک کاپی وزیر قانون کو سونپی جائے گی۔ پینل کے تقاضوں میں ترمیم کی مانگ پر پارلیمنٹ میں ہی غور ہوگا۔ یہ رپورٹ اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ ممبئی سیریل بم دھماکوں کے قصوروار یعقوب میمن کو پھانسی دئے جانے کے بعد اب اس بات پربحث شروع ہوگئی ہے کہ کمیشن کے کچھ اہم لب و لباب یہ ہیں قانون میں عمر قید کا مطلب عمر قید ہی ہوتا ہے۔ ایک طے وقت کے بعد رہائی ریاستی حکومت کرتی ہے۔ کئی ریاستوں میں الگ الگ طرح کے معاملوں میں عمر قید کی میعاد الگ الگ طے کی گئی ہے۔ سارا زور پھانسی پر ہونے کی وجہ سے پولیس اور جوڈیشیری اور خود جرائم کی اصلاحات جیسی باتوں پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ نے دہشت گردی کے ثابت معاملوں میں پھانسی دئے جانے کا فیصلہ دیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے ہی خود کئی بار نچلی عدالتوں میں منمانے طریقے سے دی گئی پھانسی کی سزا پر تشویش ظاہر کی ہے۔ صدر اور گورنر کو ملے معافی کے اختیار کے باوجود غلط شخص کو پھانسی دئے جانے کے اندیشات کو پوری طرح سے دور نہیں کیا جاتا۔ پھانسی کی سزا اکثر اقتصادی ، سماجی طور سے کمزور لوگوں کو ہی ملتی ہے۔ ہماری سفارش ہے کہ صرف دہشت گردی اور ملکی بغاوت کے معاملوں میں ہی پھانسی دی جائے۔ ہم امید کرتے ہیں ایک دن ہر طرح کے جرائم کے لئے پھانسی کی سزا بند ہوجائے گی۔ یہ تو آئینی کمیشن کا کہنا ہے کہ حالانکہ پھانسی کی سزا کولیکر آئینی کمیشن نے جو سفارش کی ہے اس پر خود کمیشن کے ممبران بھی ایک رائے نہیں تھے لیکن یہ اہم ہے کہ پھانسی کی سزا کو پوری طرح سے ختم کرنے کی سفارش نہیں کی گئی ہے۔ دہشت گردی اور ملکی بغاوت معاملے میں پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کی جو سفارش کی گئی وہ اپنے آپ میں مناسب ہے۔ بھارت دہشت گردی جیسے خطرے کا سامنا کررہا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے اس سزا کو بالکل ختم کرنے سے دیش کی سلامتی کو نقصان ہوسکتا ہے۔ویسے یہ دلیل بھی ہے کہ پھانسی کی سزا ان دہشت گردوں کے لئے جو اس کے توڑ کا کام نہیں کرسکتی جو مارنے مرنے پر آمادہ ہے۔ یہ ایک حد تک صحیح نہیں ہے لیکن اس کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا جو دہشت گرد خون خرابے پر آمادہ ہو یا جنہوں نے خود کو فدائی حملہ آور کی شکل میں مان لیا ہو انہیں پھانسی کی سزا سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ریپ ریسٹ آف ریئر کے معاملوں میں بھی پھانسی دینا صحیح ہے۔ نربھیا کانڈ جیسے معاملوں میں جہاں بربریت اور بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا جائے وہاں پھانسی ہی دینا مناسب ہوگا۔ جرائم پیشہ میں خوف پیدا کرنا ضروری ہے۔ بغیر خوف کے قانون و حکومت نہیں چل سکتی کیونکہ پورا اشو ہی بحث کا ہے جو دیش میں چھڑی ہوئی ہے اس لئے دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟