مصر میں صحافیوں کو کچلنے کی کارروائی کیلئے مذمت کرتے ہیں

مصر میں صحافیوں پر زیادتیوں کا دور شروع ہوگیا ہے۔ مصر کی ایک عدالت نے الجزیرا چینل کے تین صحافیوں کو تین سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔ تینوں کو بغیر پریس لائسنس کے کام کرنے اور مصر کیلئے مضر مواد کو ٹیلی کاسٹ کرنے کیلئے جج حسن فرید کی عدالت نے یہ سزا سنائی۔ معاملے کی دوبارہ سماعت میں سزا پانے والے صحافی محمد فہمی، بہر محمد اور پیٹر گریسٹ شامل ہیں۔ محمد فہمی مصر کی شہریت چھوڑ کر کینیڈا کے معزول شہری ہیں۔ بہر محمد مصر اور پیٹر گریسٹ آسٹریلیا کے شہری ہیں جن کی آسٹریلیا کو حوالگی ہوچکی تھی۔ تینوں کو پہلے سات سال کی سزا ملی تھی لیکن اب انہیں تین برس کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔جج حسن فرید نے کہا کہ تینوں افراد نہ تو پریس سینڈیکیٹ کے ممبر ہیں اور نہ ہی ایگریڈیٹڈ ہیں۔ تینوں بغیر لائسنس کے کام کررہے تھے۔ انہوں نے اپنے خلاف الزامات سے انکار کیا ہے۔ امریکہ نے صحافیوں کی اس سزا پر گہری تشویش اور مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سرکار سے اس میں نظر ثانی کی اپیل کی ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان میں کہا کہ الجزیرا ٹی وی کے تینوں صحافیوں کو لیکر مصر کی ایک عدالت کے ذریعے دئے گئے فیصلے سے امریکہ کو گہری مایوسی اور تشویش ہوئی ہے۔ ہم لوگ مصر کی سرکار سے اس فیصلے پر غور کرنے کے لئے سبھی ممکن قدم اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔انہوں نے کہا یہ فیصلہ استحکام اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ اظہار آزادی کو کمزور کرتا ہے۔ادھر مصر کے صدرعبدالفتح المیسی نے متنازعہ آتنک انسداد قانون کو منظوری دے دی ہے۔ اب کوئی صحافی یا میڈیا آتنکی حملے کے سلسلے میں سرکاری بیان کے خلاف خبر نہیں دے سکے گا۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے صحافی پر بھی دہشت گردی انسداد قانون لگایا جاسکتا ہے۔ اس قانون میں فوج اور پولیس کے جوانوں کو قانونی تنازعوں سے بچانے کی بھی سہولت رکھی گئی ہے۔ نئے قانون کو گزٹ میں شائع کر نافذ کردیا گیا ہے۔ اس کے مطابق سرکاری بیانوں سے برعکس کوئی جھوٹی معلومات شائع کرنے کے لئے دو سال تک کی جیل ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ 2 سے5 لاکھ مصری پاؤنڈ تک کا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ میڈیا نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔خصوصی عدالتیں بھی بنائی گئی ہیں۔ ان کے ججوں ، پولیس اور فوج کے جوانوں کوجیوری کے دئے گئے فیصلوں یا جیوری پر کی گئی سختی سے بچانے کے قانونی انتظام بھی اسی قانون میں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دہشت گرد گروپ بنانے والے یا کسی دہشت گرد گروپ میں شامل ہونے والے کو موت کی سزا کی سہولت ہے۔ مصر حکومت کے ذریعے صحافیوں پر کچلنے کی کارروائی کے اقدام کی ہم مخالفت کرتے ہیں اور صحافیوں کی آزادی پر پابندی لگانے کی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟