ہرگھنٹے دیش میں 15 لوگ خودکشی کررہے ہیں

آل انڈیامیڈیکل انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز(ایمس)میں زیر تعلیم طالبہ کا ہاسٹل میں خودکشی کرنا تشویش کا باعث ہے۔ دیش میں خودکشی کی واقعات کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ دیش میں ہر گھنٹے 15 لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ پچھلے سال(2014) میں 1 لاکھ31 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اپنی جان دی۔ اس معاملے میں ریاستوں میں مہاراشٹر اور شہروں میں چنئی ٹاپ پر ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی طرف سے جاری کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق سال2014 کے دوران جن لوگوں نے خودکشی ان میں سے 69.7 فیصدی کی سالانہ آمدنی 1 لاکھ روپے سے کم تھی۔ دوسرے لفظوں میں غریبی زندگی کو کس طرح سے متاثر کرتی ہے اسی سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال خودکشی کرنے والوں میں قریب70 فیصدی وہ لوگ تھے جن کی آمدنی 1 لاکھ روپے سالانہ سے کم تھی جبکہ اپنی زندگی ختم کرنے والے 26.9 فیصد افراد کی سالانہ آمدنی1 لاکھ سے5 لاکھ روپے تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق پچھلے سال قومی سطح پر شہروں میں خودکشی کی شرح زیادہ تھی۔ یہ شرح 10.6 فیصدی کے مقابلے شہروں میں 12.8 فیصدی تھی جہاں تک خودکشی کے اسباب کی بات ہے تو اس میں گھریلو پریشانیاں (شادی سے لیکر طلاق) کے معاملوں کا اشتراک 21.7فیصدی رہا جبکہ جان دینے کے پیچھے18 فیصدی بیماری وجہ تھی۔ ان اعدادو شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خودکشی کے ہر ایک 6 معاملوں میں ایک گرہستن شامل تھی اور کل مرد اور عورتوں کا تناسب 68.32 تھا۔ 2014ء میں خودکشی کرنے والوں میں سب سے زیادہ19.7 فیصد اپنا کام کرنے والے لوگ تھے اس کے علاوہ12فیصد مزدور،7.4فیصد تنخواہ دار ،6.1 فیصد طالبعلم اور 0.7فیصد ریکائرڈ لوگ شامل ہیں۔ جہاں تک خودکشی کے طریقے کا سوال ہے تو 41.48 فیصدی لوگوں نے پھانسی لگا کر خودکشی کی تھی جبکہ26فیصدی نے زہریلی چیزیں کھا کر کی ۔6.9فیصد نے خودسوزی کی۔ 5.6فیصد نے ڈوب کر اور1.1 فیصد نے عمارتوں سے چھلانگ لگا کر اپنی جان دی۔ خودکشی کرنے والوں میں 20.2فیصد میٹرک پاس تھے جبکہ19فیصد نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی تھی۔ پچھلے سال خودکشی کرنے والوں میں 14.3فیصد جاہل اور11فیصد 12 ویں کلاس تک پڑھنے والے تھے۔ہوسٹل اور اسکولوں میں اس طرح کا ماحول بنانا ضروری ہے جس سے دیش کے کونے کونے سے آئے طالبعلم خودکو محفوظ اور ایک ہی خاندان کا حصہ سمجھیں۔ ہم ان خودکشیوں کو تو روکنے کی کوشش کریں جو بچوں میں ہورہی ہیں۔ بچوں سے وقتاً فوقتاً بات چیت کر ان کی پریشانیوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ ایمس انتظامیہ اور حیدر آباد کے کالج کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ان طالبعلموں کے ساتھ کچھ بھی غلط نہ ہو۔ طالبات کو بھی سمجھنا چاہئے خودکشی کی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟