تاکہ پھر نہ لگے ایمرجنسی!

دیش میں ایمرجنسی تھونپنے کی برسی25 جون سے پہلے بھاجپا کے سینئر لیڈر اور اب مارگ درشک منڈل کے ممبر لال کرشن اڈوانی نے ایک انگریزی اخبار کو دئے گئے انٹرویو میں کہا کہ1975-77 میں ایمرجنسی عہد کے بعد کے برسوں میں میں نہیں سوچتا کہ ایسا کچھ بھی کیا گیا ہے جس سے میں پوری طرح با آور رہوں کہ شہری آزادی پھر سے معطل یا تباہ نہیں کی جائے گی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے کوئی بھی اسے آسانی سے نہیں کرسکتا۔ ایسا پھر سے ہوسکتا ہے۔ بنیادی آزادی میں کٹوتی کردی جائے۔ ایک جرم کی شکل میں ایمرجنسی کو یاد کرتے ہوئے اڈوانی جی نے کہا کہ اندرا گاندھی نے اسے بڑھاوا دیاتھا۔2015 کے بھارت میں کافی سکیورٹی کوچ نہیں ہے۔ شری اڈوانی کے اس بیان کو اپوزیشن پارٹیوں نے نریندر مودی سرکار کے خلاف کی گئی رائے زنی کی شکل میں لے کر اس کا غلط مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس کے ترجمان ٹام وڈریکن نے کہا کہ مودی عہد ایمرجنسی کا اشارہ دے رہا ہے۔ اڈوانی جی کو جو کہنا تھا وہ کہہ دیا۔ صاف ہے کہ وہ اس کس کی بات کررہے ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا اڈوانی جی صحیح کہہ رہے ہیں کہ ایمرجنسی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیا دہلی ان کا پہلا تجربہ ہے؟ لال کرشن اڈوانی نے جو اندیشہ ظاہر کیا ہے اسے ایک خاص پارٹی کے حمایتی یا باغی لیڈر کے بیان کی شکل میں نہیں لیا جاسکتا اور نہ ہی لیا جانا چاہئے۔ یہ جدید بھارت کے سیاسی فروغ میں لمبا اور سرگرم نبھا چکے ایک تجربہ کار اسٹیٹ مین کی نپی تلی رائے ہے۔ ہندوستانی جمہوریت اور اس کے شہریوں کے لئے ایمرجنسی کا دور ایک کالا باب رہا ہے۔ تب دیش نے دیکھا تھا کس طرح عدم تحفظ اور غرور میں چور ہوکر اس وقت کی سیاسی لیڈر شپ نے بے رضامندی اور احتجاج کے شہری حقوق کو یرغمال کرلیا تھا۔ لیکن تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ دیش میں جمہوریت کو کچلنے کی اس بدنیتی کے خلاف زبردست پلٹ وار کرتے ہوئے ووٹ کے ذریعے ذمہ داری کو زبردست سبق سکھایاتھا۔ یہ صحیح ہے کہ ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ جس دور میں دیش نے ایمرجنسی کو سہا آج ہمارے جمہوریت اس سے زیادہ سنجیدہ اورسرگرم حالت میں ہے۔ سرگرم عدلیہ اور بیلاگ میڈیا اور اپنے شہری حقوق کے تحفظ کو لیکر چوکس ووٹر خاص کر چناہوا طبقہ کی موجودگی میں ایمرجنسی کی آہٹ دور دور تک سنائی نہیں دیتی۔ جہاں تک اڈوانی جی کا یہ کہنا کہ ایمرجنسی سے بچنے کے پختہ قدم ابھی نہیں اٹھائے جاسکے ،تو شاید ان کی یہ کمی ہے کہ ہمارے آئین میں ایسی ترمیم نہیں ہوئی جس سے ایمرجنسی لگانے کی بات پر کوئی حکمران غور نہ کرسکے۔ سچائی یہ ہے کہ اکیلے ایسی قانونی قدم میں اتنا مادہ نہیں ہے کہ وہ ایمرجنسی عہد کے خطرے سے ہمیں محفوظ کر سکے۔ یہ بھی نظر آرہا ہے کہ ان کے کہنے کے بہانے مخالف مودی سرکار پر نشانہ لگانے میں جٹ گئے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کے اندر بھی حالیہ دنوں میں ایسے ٹرینڈ کو مضبوطی ملی ہے جن کا جمہوری اقدار اور کسوٹیوں سے کوئی میل نہیں ہے۔سرکار میں سارے اختیارات ایک شخص کے ارد گرد سمٹے ہوئے ہیں لیکن اڈوانی جی کی تشویشات صرف سیاسی پارٹیوں تک محدود نہیں لگتی۔ جمہوریت کا پہریدار کہے جانے والے ایسے ادارے دیش میں نظر نہیں آتے جن کے جمہوری اقدار کو لیکر عزم پر شبہ ہو۔ یہ خیال رکھنا ضروری ہے جمہوری اقدار اور حقوق کو یرغمال ہر بار باقاعدہ اعلان کرکے نہیں کیا جاسکتا۔ وہ جمہوری دائرے میں قاعدے قانون کی آڑ میں بھی ہو سکتا ہے۔ بچا ہوا اور کوئی قدم نظر نہیں آتا سوائے مسلسل چوکسی ، مسلسل بیداری کے علاوہ۔ اڈوانی جی نے یہ بھی کہا کہ آج کی تاریخ میں نکمے پن کے خلاف میڈیا بیحد طاقتور ہے لیکن یہ جمہوری اور شہری حقوق کے لئے اصلی عزم ہے۔مجھے نہیں پتہ اس کی جانچ کرنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟