اور اب جانچ کے دائرے میں آئیں ڈبہ بند غذائی اجناس

میگی نوڈلس میں طے پیمانوں سے زیادہ مقدار پائے جانے کے بعد اب سبھی ڈبہ بند فوڈ پروڈکٹس کی کوالٹی کو لیکر سوال اٹھنے لگے ہیں۔فوڈ سیفٹی ریگولیٹر اتھارٹی آف انڈیا نے اسٹیٹ فوڈ کمشنروں سے کہا ہے کہ وہ بازار میں دستیاب سبھی ڈبہ بند چیزوں کی جانچ کریں۔ یہ حکم میگی کو لیکر پیدا ہوئے تنازعہ کے درمیان آیا ہے۔ دیش میں سینکڑوں ڈبہ بند غذائی اجناس بغیر رجسٹریشن کے ہی فروخت ہو رہی ہیں۔ ایسے میں ان پروڈکٹس کی جانچ ضروری ہوگئی ہے لیکن اس سے مطمئن نہیں ہوا جاسکتا۔ انڈین فوڈ محکمے کی جانب سے ریاستی حکومتوں کو ڈبہ بند اجناس کی جانچ کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اس حکم کے تحت جس طرح یہ کہا گیا ہے ان غذائی پروڈکٹس کے نمونوں کی بھی جانچ ہو جو ایف ایس ایس اے آئی سے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دیش میں ایسے بھی ڈبہ بند سامان بک رہے ہیں جن کی کوالٹی کی کہیں کوئی جانچ پرکھ نہیں ہورہی ہے۔حالانکہ ڈبہ بند فوڈ سے صحت پر پڑنے والے نا مناسب اثر کو لیکر پہلے کئی جائزے آئے ہیں۔ان کی کوالٹی پر سختی سے نظر رکھنے کی ضرورت کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن تب اس معاملے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی دی تھی۔ رسوئی گھر میں روز تیار ہونے والے کھانے پر آہستہ آہستہ بازار کا قبضہ ہوتا گیا ہے اور طرح طرح کی نمکین اور مٹھائیوں ،دودھ سے بنی چیزوں کے علاوہ اچار، چٹنی، مربے ، پھل کے رس، شربت، کٹی ہوئی سبزیاں یہاں تک کہ تیار روٹی ،پراٹھے دال و گوشت وغیرہ بھی پیکٹوں میں دستیاب ہونے لگے ہیں۔ شاید ہی اب ایسا کوئی روایتی کھانا ہے جسے پیکٹ میں بند کرکے بیچنے کی ترکیب نہ نکالی گئی ہو۔ غذائی پروڈکٹس کی خامی کا معاملہ کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا اس طرح کے معاملے رہ رہ کر سامنے آتے رہتے ہیں اور ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مرکز اور ریاستوں میں فوڈ پرڈکٹس کی کوالٹی پرکھنے کے لئے کوئی ٹھوس سسٹم نہیں بنا رکھا ہے۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے غذائی پروڈکٹس کی کوالٹی کی جانچ پرکھ کا موجودہ سسٹم کوئی بہت زیادہ بھروسے مند نہیں ہے۔ فوڈ پروڈکٹس صحت کے لئے نقصاندہ ہیں یا نہیں اس کا تجربہ کرنے والی لیباریٹری کی پوزیشن پر بھی تسلی نہیں ہے۔ کئی ریاستوں میں تو اس طرح کی لیباریٹری میں بنیادی وسائل ہی نظر نہیں آتے۔ دیر سے ہی صحیح ایف ایس ایس آئی سبھی ڈبہ بند غذائی پروڈکٹس کی کوالٹی جانچنے کیلئے سرگرم ہوا ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں کتنی شفافیت اور غیر جانبداری برتی جاتی ہے۔ نامی گرامی کمپنیوں کی پبلسٹی اور بکری مشینری کو لیکر کئی بار شبہ ہوا ہے لیکن ان کے رسوخ یا پہنچ کے سبب کبھی ان پر جانچ کی آنچ نہیں آتی۔ صارفین کے پاس غذائی پروڈکٹس کی کوالٹی جانچنے کا نہ توک وئی آسان اور ٹھوس ذریعہ ہے اور نہ ہی عدالت میں یہ ثابت کر سکنے کا طریقہ ہے کہ کوئی چیز کھانے کے بعد اس کی صحت پر مضر اثر پڑا اس لئے ایف ایس ایس اے آئی کی تازہ پہل نے امید جگائی ہے بشرطیکہ یہ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟