جے للتا کیس میں فیصلہ’’ دیر آید درست آید‘‘

آمدنی سے زیادہ جائیداد اکٹھا کرنے کے معاملے میں تاملناڈو کی وزیر اعلی جے للتا کو ہوئی سزا دیش کی سیاست میں ایک اہم واقعہ ہے۔ جہاں جے للتا اب اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی مشکل سے روبرو ہیں وہیں یہ فیصلہ عدلیہ کی تاریخ بھی بن گیا ہے۔ حالانکہ کرپشن یا دوسرے مجرمانہ معاملے میں سرکردہ شخصیتوں کے جیل جانے کی بات کوئی نئی نہیں ہے لیکن یہ پہلا موقعہ ہے جب ایک وزیر اعلی کو سزا ہوئی ہے۔ اس سے یہ پیغام ضرور جاتا ہے کہ کوئی کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ جے للتا کو آمدنی سے زیادہ جائیداد اکٹھاکرنے کے 18 سال پرانے معاملے میں 4 سال کی سزاکے اعلان سے کہا جاسکتا ہے کہ آخر کار قانون کے لمبے ہاتھ ان تک پہنچ گئے۔ ہمارے سامنے ایسے کئی معاملے آئے ہیں۔ آر جے ڈی چیف لالو پرساد یادو، سابق وزیر مواصلات سکھرام، ہریانہ کے سابق وزیر اعلی اوم پرکاش چوٹالہ کو عدالت قصور وار قرار دے چکی ہے۔ڈی ایم کے لیڈر اے راجہ، کنی موجھی اور سابق وزیر مواصلات دیا ندھی مارن کا معاملہ بھی سامنے ہے۔ جے للتا کا فیصلہ جہاں عدلیہ میں لوگوں کا بھروسہ اور بڑھائے گا وہیں یہ ان لوگوں کے لئے سخت وارننگ کا بھی کام کرے گا جو سوچتے ہیں کہ عہدہ یا اس کے رسوخ کا استعمال کر وہ اپنے کرپٹ کارناموں کا نتیجہ بھگتنے سے بچے رہیں گے۔ جے للتا کے سامنے فوری چیلنج اپنی پارٹی سے ایک بھروسے مند شخص کی تلاش تھی جو ان کے نام پر ریاست کا راج چلا سکے۔ اس کام کے لئے جے للتا نے انہی پنیل سیلووم کو چنا جو پہلے بھی ایسے حالات میں ان کی پہلی پسند تھے لیکن اب پارٹی اور سرکار پر جے للتا کا ایک دبدبہ لمبے عرصے تک قائم رہے گا اس پر شبہ ضرور ہے۔ وجہ پچھلی بار جے للتا بیحد کم وقت کیلئے کرسی سے ہٹنے کے لئے مجبور ہوئی تھی لیکن اس بار عدالتی فیصلے نے پورے 10 سال کے لئے انہیں چناؤ لڑنے یا آئینی عہدہ سنبھالنے سے محروم کردیا ہے۔ اگر اوپری عدالتیں انہیں بے قصور مان لیتی ہیں تو اور بات ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو بہت برسوں تک جے للتا اقتدار سے باہر رہ سکتی ہیں۔ اب یہ اہم سوال ہے کہ جے للتا کے بغیر تاملناڈو کی سیاست کیسی رہے گی اور ان کی سیاسی زندگی کا کیا ہوگا؟ پچھلے کچھ برسوں سے جے للتا نے اپنی کافی مقبولیت بڑھائی ہے۔ سزا ہونے سے تاملناڈو کی سیاست میں نئے تجزئے بنے گے۔ 
سال2016ء میں امکانی اسمبلی چناؤ میں انا ڈی ایم کے کے امکانات پر بھی اس فیصلے کا اثر پڑے گا۔ ان کے حریف ڈی ایم کے اور اس کے نیتاکروناندھی ان حالات کا فائدہ ضرور اٹھانا چاہیں گے لیکن ان کی پارٹی میں بھی اتحاد نہیں ہے اور خاندان بری طرح سے بٹا ہوا ہے۔ پھر اب تک یہ پارٹی بھی اپنے نیتاؤں کے گھوٹالوں میں مسلسل گھرے رہنے سے ہلکان ہوئی ہے۔ اب ریاست کی سیاست میں بھاجپا بھی اس لئے نئے موقعے دیکھ سکتی ہے۔ حالیہ لوک سبھا چناؤ میں تاملناڈو سے ایک سیٹ جیتنے اور ووٹ فیصد بڑھنے سے بھاجپا گدگد ہے۔ بہرحال سیاست میں نفع نقصان کا تو تجزیہ چلتا ہی رہے گا اہم بات یہ بھی ہے کہ فیصلہ کرپشن کے خلاف جاری لڑائی کا ایک اہم مقام ہے۔ خاص کر سزا یافتہ عوامی نمائندوں کی ممبری ختم کرنے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی کرپرشن پر حملہ ہونے کی جو امید لگائی گئی تھی جے للتا کا معاملہ اس امید کے پورا ہونے کا اب تک کی سب سے بڑی مثال ہے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جے للتا حمایتی رو دھوکر یہ جتانے کی کوشش میں لگے ہیں کہ ان کے نیتا کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ کچھ توڑ پھوڑ اور تشدد پر آمادہ عناصر کو صحیح پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ انصاف میں 18 سال کی تاخیر ایک مضر نتیجہ ہے جبکہ کبھی نچلی عدالتوں سے سزا پائے لیڈر اوپری عدالتوں سے راحت پا جاتے ہیں وہ تو اس کا بھی سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس فیصلے کی زد میں حالانکہ لالو یادو اور رشید مسعود جیسے لیڈر بھی آئے لیکن اس کے چلتے کسی بھی ریاست کے بڑے سیاستداں کو عہدہ چھوڑنا پڑے۔ جے للتا کے معاملہ میں پہلی بار ہوا ہے حالانکہ جس جے للتا کے معاملے کو انجام تک پہنچانے میں18 سال لگے اس سے عدلیہ کی کارروائی کی لیٹ لطیفی پر سوالیہ نشان لگتے ہیں۔ ایسے وقت انصاف ہر شخص اور عام آدمی کا حق ہے لیکن نیتاؤں کے معاملے میں اگر جلدی نپٹارہ ہوجائے تو سیاست میں صفائی کو تقویت مل سکتی ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو سمجھنا ہوگا کے آج عوام بیدار ہوچکی ہے اور وہ اچھی سے دیکھ اور سمجھ رہی ہے کہ کس طرح اثردار لوگوں کے معاملے میں قانونی کارروائی الگ ڈھنگ سے آگے بڑھتی ہے اور عام لوگوں کے معاملے میں دوسری طرح سے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟