50 سے زائد افسروں کا تبادلہ!

کسی بھی حکومت کے کامیاب ہونے میں افسر شاہی بہت بڑا تعاون دیتی ہے۔ وزیر اعظم ،وزرا پالیسیاں طے کردیتے ہیں لیکن انہیں بنیادی عمل دلانے میں افسرشاہی بہت حد تک ذمہ داری ہوگی ہے۔ مودی سرکار میں تو یہ بات اس لئے زیادہ اہم ہوجاتی ہے کیونکہ نریندر مودی اپنے وزرا سے زیادہ افسروں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جہاں مودی خارجہ پالیسی میں نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں وہیں گھریلو مورچے پر ان کا گراف نیچے گر رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اسی افسر شاہی سے کام چلا رہے ہیں جو یوپی اے کے دور سے جمی ہوئی ہے۔ جو سکریٹری وغیرہ منموہن سنگھ سرکار میں کام کررہے تھے وہیں مودی سرکار میں ہیں۔ سیدھا سوال کیا جاسکتا ہے کہ جن کی وجہ سے منموہن سنگھ سرکار ہاری اب مودی سرکار کے لئے وہ کیسے اچھے نتائج دے سکتے ہیں؟افسر شاہی کسی جوابدہ میں یقین نہیں رکھتی۔ وہ عوام کو جواب نہیں دیتی اسی وجہ سے انہیں بنیادی سطح پر حالات میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ تو صرف کتابی فارمولوں پر کام کرتے ہیں۔ جب تک مودی ایسے افسروں کو اہم عہدوں سے نہیں ہٹاتے تب تک مہنگائی جیسے برننگ اشو پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اب جاکر مودی سرکار جاگی ہے۔ اس نے آدھی رات کے بعد اچانک 50 سے زائد سینئر افسروں کا تبادلہ کردیا ہے۔ حالیہ دنوں میں مرکز میں ایک ساتھ اتنے وسیع پیمانے پر سینئر افسروں کا تبادلہ نہیں کیا گیا تھا۔ ایسے میں یہ مرکزی سرکار کے ذریعے اٹھایا گیا بڑا قدم مانا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے جن افسروں کا ٹرانسفر کیا گیا ہے ان میں40 آئی اے ایس کے افسر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انڈین ریوینیو سروس ، انڈین پوسٹل سروس، انڈین انوارمینٹ سروس، انڈین سول اکاؤنٹس سروس کے ساتھ دیگر افسران بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کئی افسر مختلف وزارتوں میں جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے پر تعینات تھے۔ ذرائع کی مانیں تو اس طرح سے بڑی تعداد میں افسروں کے تبادلے اترپردیش ، تاملناڈو جیسی ریاستوں میں ہی ایک ساتھ کئے جاتے ہیں۔ چناؤ کے بعد اس بات کا بھی تذکرہ تھا کہ سیکریٹری سطح کے افسران کے وسیع تبادلے ہوں گے لیکن اسے عمل میں لانے میں 100 دن سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔ حکومت نے جہاں ان تبادلوں کو معمول کی کارروائی بتایا ہے وہیں لوگ افسروں کی کام کی اہلیت سے جوڑ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان تبادلوں کو خاص عہدوں کے لائق افسروں کا ناپایا جانا اور ان کی سابقہ یوپی اے سرکار کے ساتھ قربت کو بھی ذہن میں رکھا گیا ہے۔ پچھلے دنوں دیش کی سی وی سی پردیپ کمار نے سرکاری محکموں میں پنپ رہے کرپشن اور شکایتوں پر کارراوئی نہ کرنے کے لئے ذمہ دار افسروں کو جم کر پھٹکار لگائی تھی۔ سی وی سی نے سفارش بھی کی تھی کہ شکایتوں سے نپٹارے میں غریب آدمی پر توجہ دی جائے اور کام میں تیزی ہونی چاہئے۔ اور لاپرواہ افسروں پر سختی سے سزا دی جائے۔ اعلی افسر وقت کے ساتھ اپنے ماتحتوں کی کارروائی کو دیکھیں کہ ان تبادلوں اور سی وی سی کی سفارشوں سے مودی کی سرکار پر کیا اثر پڑتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟