راہل کی قیادت پر اٹھتے سوالوں سے کانگریس الجھن میں مبتلا!

بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ عام چناؤ میں مایوس کن نتائج سے لگے دھکے سے کانگریس پارٹی اتنے دن گزرنے کے بعد بھی سنبھل نہ پائی۔ محاسبہ یا غورو فکر کرنے کی ضرورت تھی وہ نہیں کیا گیا۔آج بھی کانگریس پارٹی بے جان لیڈر شپ میں نظر آرہی ہے۔کانگریس لیڈر شپ میں راہل گاندھی کا رول انتہائی اہم ہے۔ محترمہ سونیا گاندھی اب اتنی سرگرم عمل نہیں ہیں شاید اپنی صحت کی وجہ سے وہ اب پارٹی کے کام کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی ہیں۔سارا دارومدار انہوں نے اپنے صاحبزادے اور پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی پر چھوڑ رکھا ہے۔ ان کا یہ حال ہے کہ مودی سرکار کے خلاف یوتھ کانگریس کی ناراض ریلی میں راہل گاندھی کی ناراضگی صرف پوسٹر اور بینروں میں ہی دیکھنے کو ملی۔ دراصل راہل گاندھی ریلی سے غائب رہے۔ ایسا کرکے راہل گاندھی ایک بار پھر کانگریس کو آگے بڑھاکر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی سے ایک بار پھر کانگریس کے اندر ان کی سیاسی سرگرمی کو لیکر سوال کھڑے ہونے لگے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران لوک سبھا میں دیش میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کو لیکر مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے و ہ لوک سبھا اسپیکرکی ویل میں آگئے تھے۔ مگر جب اس اشو پر بحث کا وقت آیا تو انہوں نے بولنا ہی مناسب نہیں سمجھا۔ راہل گاندھی کی غیر موجودگی سے کانگریس پارٹی میں ایک طرح سے الجھن کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ مہاراشٹر اور ہریانہ کے چناؤ میں کیا راہل گاندھی کانگریس کی طرف سے پرچار کریں گے؟ اس سوال پر کانگریس پارٹی کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کیا کریں؟ پارٹی صدرسونیا گاندھی کی گھٹتی مقبولیت اور راہل گاندھی کی بے تکی سیاست سمجھ سے باہر ہے۔ دیش کی یہ سب سے پرانی پارٹی بری طرح سے بے جان لیڈر شپ کے جال میں پھنستی جارہی ہے۔ حالت تو یہ ہوگئی ہے کہ سارا دارومدار اب ریاستوں کے وزرائے اعلی پر آگیا ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ پارٹی کے پاس نہ تو مغربی بھارت کی اہم ریاست مہاراشٹر میں اور نہ ہی شمالی ہندوستان کی ریاست دہلی سے لگے راجیہ ہریانہ میں پارٹی کے پاس کوئی اسٹار کمپینر نہیں بچا ہے۔ کانگریس پارٹی کی بدقسمتی یہ ہے کہ نہ تو لوک سبھا میں اور نہ ہی راجیہ سبھا میں پارٹی لیڈر شپ نے ایسے لیڈروں کو اپوزیشن کا لیڈر بنادیا ہے ج بنیادی ورکروں یا عوام سے ملتے ہی نہیں اور نہ ہی ان کی وکروں پر پکڑ ہے۔ لوک سبھا میں کرناٹک کے ایم پی ملکا ارجن کھڑگے کو اپنا لیڈر بنایا ہے اور ان کا شمالی ہندوستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ شری کھڑگے کو اپوزیشن لیڈر کا درجہ دینے سے بھی مودی سرکار نے صاف انکا کردیا ہے۔ شاید سرکار اس بات پر راضی ہوسکتی تھی کہ اگر لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی کے سب سے سینئر لیڈر کو لیڈر اپوزیشن کے عہدے پر بٹھانے کے لئے کوشش کرتی یہ اہلیت مسٹر کملناتھ میں ہے جو مہاراشٹر میں آتے ہیں اور 1980ء مسلسل چناؤ جیتتے آرہے ہیں۔ آج سینئر کانگریسیوں سے لیکر سڑک پر ورکر راہل گاندھی کی سیاسی سوجھ بوجھ اور نیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔نہرو۔ گاندھی خاندان کانگریس پارٹی کے لئے بہت اہم ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے جب راہل گاندھی پارٹی میں دلچسپی نہیں رکھتے تو پارٹی کا مستقبل باعث تشویش بنتا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟