پھر مسلم خوش آمدی! ڈوبتے کو تنکے کا سہارا

عام چناؤکے چھ مرحلے پورے ہوجانے کے بعد اچانک کانگریس کو مسلمانوں کی یاد آئی ہے۔چناؤ میں پیچھے چھوٹ چکی پارٹی کو اب ان کو4.5 فیصد ریزرویشن کا وعدہ ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے برابر ہے اور سنجیونی کی تلاش کے برابر ہے اسے اتنے دن گزر جانے کے بعد مسلم فرقے کو یہ بتانے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟چناؤ منشور جاری کرنے کے قریب مہینے بھر بعد اس ضمنی اعلان کی منشا کیا ہے۔مسلم ووٹوں کو متاثر کرنا۔ بنیادی چناؤ منشور میں پارٹی نے پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن کافائدہ دینے کی بات کہی ہے لیکن ضمنی چناؤ منشور میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو دیگر پسماندہ طبقات کے تحت دئے جانے والے ریزرویشن میں پسماندہ مسلمانوں کو چار فیصدی کا کوٹا ملے گا۔ اس اعلان سے کچھ سوال ضرور اٹھیں گے۔ پہلی بات یہ ہے کہ آخر اب جب کچھ مرحلوں کی پولنگ باقی ہے کانگریس کو پسماندہ مسلمانوں کی یاد کیوں آئی؟دوسرا بڑاسوال یہ ہے اگر پسماندہ مسلمانوں کے مفادات کی اتنی ہی فکرتھی تو پچھلے دس سالوں میں اقتدار میں رہنے کے دوران کانگریس نے اس کے لئے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ اگرچہ اس بارے میں کانگریس کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے ہی اس کی سہولت تو تجویز کی تھی لیکن عمل نہیں کیا جاسکا۔ کانگریس ترجمان اور وزیر قانون کپل سبل نے کہا کہ پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن کامعاملہ سپریم کورٹ میں التوا میں ہے جب تک بڑی عدالت میں اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں آجاتا پارٹی کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ مسلمانوں سمیت سبھی اقلیتوں کو ترقی ملے اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن مشکل یہ ہے کانگریس کا یہ کارڈ چناوی فائدے کیلئے ارادہ ظاہر ہوتا ہے۔ چناؤ سے پہلے بھی سونیا گاندھی کی شاہی امام سے ملاقات، مسلم فرقے کو کانگریس کے لئے ووٹ کرنے کی اپیل یہ دیش سن چکا ہے۔مسلم خوش آمدی کی سیاست صرف کانگریس کرتی ہے ایسا بھی نہیں ہے کہ چناوی دور میں اروند کیجریوال کی توقیر رضا سے اور بھاجپا پردھان راجناتھ سنگھ کی کلب صادق سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ریزرویشن کے اندر ریزویشن کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہ معاملہ عدلیہ کے سامنے زیر سماعت ہے ایسے میں وعدہ کئے جانے کے باوجود فی الحال اس پر عمل کرپانا مشکل ہے۔ ایسے میں اس ضمنی وعدے کایہ ہی مطلب ہے کہ اگر پسماندہ مسلمانوں کو اس وعدے پر بھروسہ ہوجائے تو ممکن ہے کہ کانگریس کو اس کا کچھ فائدہ ہو پائے گا لیکن ریزرویشن کی امید کافی کم لگ رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ نہ صرف بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا کی جانب سے سخت احتجاج کیا جارہا ہے بلکہ پسماندہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا ردعمل بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ ہمیں شبہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان اب کانگریس کے حسین سپنے دکھانے کے جھانسے میں آئے گا۔ مرکز میں دس سال سے اقتدار میں رہتے ہوئے کانگریس نے ان کی بہتری کے لئے تمام قدم اٹھانے کی پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کیا۔ اب جب پولنگ کے چھ مرحلے پورے ہوچکے ہیں اور کچھ ہی باقی ہیں ہمیں شبہ ہے مسلم فرقہ کانگریس کے اس وعدے کو سنجیدگی سے نہیں لے گا۔جیسا کہ میں نے کہا ’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ‘ کے برابر ہے یہ ضمنی اعلان نامہ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟