کانپور اور سنگم نگری الہ آباد میں زبردست مقابلہ!

اترپردیش کی صنعتی راجدھانی کی شکل میں مشہور کانپور لگتا ہے اپنی پہچان کھوتا جارہا ہے۔بند ہوتی ملیں، مزدوروں کی ہجرت روکنے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔لال املی،ایلیگن مل، جے کے جوٹ مل جیسی کئی نامی گرامی کپڑا ملیں ہیں جن میں تیا کپڑے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنی کوالٹی کا لوہا منواتی رہی ہیں۔ اب یہ سب بند ہو چکی ہیں۔کانپور سے اس بارچناؤ میں بی جے پی نے اپنے سرکرد ہ لیڈر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو میدان میں اتارا ہے۔ مقابلے میں ہیں کانگریس کے مرکزی وزیر سری پرکاش جیسوال جو بڑے قد والے لیڈر ہیں اور حکومت کے کوئلہ منتری ہیں، وہ دعوی کرتے ہیں جتنی ترقی پچھلے 15 برسوں میں کانپور میں ہوئی ہے اتنی کبھی نہیں ہو پائی۔ امید ظاہرکرتے ہیں کہ چوتھی بار یہاں کی جنتا انہیں ایم پی چنے گی اور بھاجپا کے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کے امیدوار بنائے جانے سے کانپور کا چناؤ کافی دلچسپ بن گیا ہے اور کانٹے کا مقابلہ ہے۔ بسپا نے سلیم احمد کو میدان میں اتارا ہے۔ حالانکہ پچھلی باربھی پارٹی نے انہیں امیدوار بنایا تھالیکن بعد میں ٹکٹ سکھدا مشرا کو دے دیا گیا۔عام آدمی پارٹی نے مسلم ووٹ میں سیند لگانے کے لئے ڈاکٹر محمود حسین رحمانی کو میدان میں اتارا ہے حالانکہ ڈاکٹر رحمانی پہلی مرتبہ لوک سبھا کا چناؤ لڑ رہے ہیں۔ سپا نے پہلے کمیڈین راجو شریواستو کو امیدوار بنانے کا اعلان کیا لیکن مقامی پارٹی یونٹ کا ساتھ نہ ملنے کی بات کر انہوں نے میدان چھوڑدیا تھااس کے بعد پارٹی نے سرندر موہن اگروال کو میدان میں اتارا۔ پچھلے چناؤ میں وہ چوتھے مقام پر تھے۔ڈاکٹر جوشی کی ایک بڑی مشکل ان کی اکھڑ مزاجی ہے۔ یہاں پارٹی ورکروں کو یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ان کا قد کتنا بڑا ہے۔ وہ یہ بتانا بھی نہیں بھولتے کہ وہ اٹل جی اور اڈوانی جی کو بھی کیسے صلاح دیتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر جوشی کو یہ پسند نہیں کہ بغیر اجازت لئے پارٹی کے لیڈر ٹھیٹ کانپوریہ انداز میں ان کے کمرے میں گھس آئیں۔ سری پرکاش جیسوال کے لئے سب سے بڑی چنوتی یہ ہے کہ ملائم سنگھ کے اثر کے چلتے یہاں مسلم ووٹ بینک کا ایک بڑا حصہ سپا میں جانے سے روکنا ہے۔ عام آدمی پارٹی امیدوار ڈاکٹر محمود رحمانی جانے مانے آنکھوں کے ماہر ہیں لیکن وہ کسی بھی ووٹ بینک میں سیند نہیں لگا پارہے ہیں۔ ڈاکٹر جوشی کو جہاں مودی لہر کا فائدہ ملے گا وہیں جیسوال کو ناراضگی و کوئلہ گھوٹالے سے پیداحالات کا مقابلہ کرنا ہے لڑائی ان دونوں کے درمیان ہے۔ اب بات کرتے ہیں سنگم نگری الہ آباد کی۔ آزادی کی لڑائی کے دوران سیاست کا مرکز رہا آنند بھون اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ الہ آباد دیش کو مسلسل سیاسی طاقت دیتا رہا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ہی لال بہادر شاستری، سورگیہ وشواناتھ پرتاپ سنگھ، سورگیہ ہیموتی نند بہوگنا ،چھوٹے لوہیا، جنیشور مشرا اور بھاجپائی لیڈرڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی ساکھ اسی شہر سے بڑھی ہے۔ صدی کے مہا نائک امیتابھ بچن نے بھی اسی علاقے سے سیاست کا سبق سیکھا ہے۔ ایسے میں دھورندروں کے سبب ہی الہ آباد پارلیمانی سیٹ برسوں تک وی آئی پی سیٹ رہی۔برسوں پہلے یہ درجہ چھن گیا۔ اس بار چناؤ مقابلہ سپا کے ریپتی رمن سنگھ، بھاجپا کے شیام چرن گپتا، کانگریس کے نند شیو پال اور عام آدمی پارٹی کے آدرش شاستری اور الہ آباد سے دو بار ایم پی رہے ریپتی رمن سنگھ کی پارٹی میں مضبوط پکڑ ہے اور انتظامیہ کے حلقوں میں کافی دھاک رہی ہے۔حلقے کا کوئی بھی ایسا گاؤں نہیں جہاں کے لوگ انہیں پہچانتے نہ ہوں۔ ریپتی کا دعوی ہے کہ انہوں نے پچھلے دس برسوں میں الہ آباد میں کئی ترقیاتی کام کئے ہیں اور ووٹر انہیں سرپر بٹھاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں سے وہ مسلسل تین چناؤ جیتنے کا ریکارڈ بھاجپا نیتا ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی ہی بنا پائے۔ ان کی وجہ سے ہی یہ سیٹ بھاجپا کا گڑھ بنی رہی لیکن ریپتی رمن سنگھ نے ’’انڈیا شائننگ‘‘ کے دور میں انہیں ہرایا۔ ریپتی بھی لگاتار دو چناؤ جیت چکے ہیں اور یہاں سے اب ان کے تیسری بار جیتنے کا امکان ہے۔ بھاجپا امیدوار شیام چرن گپتا کو دومہینے پہلے تک جو سپا میں تھے،مودی لہر اور پرانے روابط پر انہیں بھروسہ ہے۔ دعوی تو یہ بھی کرتے ہیں کہ ریپتی رمن سنگھ کے تمام سپہ سالاروں کے رابطے ان سے اب بھی ہیں۔ بسپا کی کراری دیوی پٹیل سابق ضلع پنچایت پردھان رہی ہیں اور بسپا کیڈر کی مضبوط لیڈر ہیں۔ 2004ء میں پھولپور سے امیدوار تھیں اور نمبر دو پر رہیں۔ کانگریس کے نند گوپال گپتابسپا سرکار میں مایاوتی کے قریبی رہے ہیں۔ مانا جارہا ہے کہ وہ کسی کے لئے بھی پریشانی کھڑی کرسکتے ہیں لیکن مرکز میں ناراضگی فیکٹر اور پارٹی کی حالت اتنی مضبوط نہیں سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے پوتے اور کانگریسی لیڈر انل شاستری عام آدمی پارٹی کے امیدوار ہیں۔ ان کے نا م پرکیجریوال کوووٹ ملنے کا سہارا ہے۔کائستھ ووٹروں سے بھی حمایت کی امید ہے۔ کل ملا کر الہ آباد میں کانٹے کے مقابلے میں ریپتی رمن سنگھ کو ہرانا مشکل لگ رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟