اگر نریندر مودی نہیں تو کون؟

16 ویں لوک سبھا کا چناوی منظر فی الحال دھندھلا دکھائی دے رہا ہے۔ اس چناؤ میں کانگریس اور بھاجپا کے درمیان زیادہ تر سیٹوں پر سیدھی ٹکر ہے۔ علاقائی پارٹیاں دیواربن کر بیچ میں کھڑی ہوئی ہیں جبکہ اروند کیجریوال دونوں قومی پارٹیوں کی کامیابی مہم کی رفتار تھامنے میں لگے ہوئے ہیں اور ووٹ کٹوا کردار میں نظر آرہے ہیں۔ چناوی ہوا کا مزاج بھانپ کر ہیں اب بھاجپا کے پی ایم امیدوار اور کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کیجریوال پر اب سیدھے حملے شروع کردئے ہیں۔ ابھی تک نریندر مودی کانگریس کو ہی نشانہ بناتے رہے ہیں اور کانگریس انہیں۔ لیکن ’آپ‘ کے بڑھتے اثر کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کردی ہے۔ انہیں ہندی بولنے والے علاقوں میں ’آپ‘ سے سیاسی نقصان ہونے کا خطرہ لگ رہا ہے۔ ان ناگزیں سیاسی حالات کے چلتے این ڈی اے اور یوپی اے کو اکثریت کے لئے جادوئی نمبر تک پہنچانا ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے۔ چناؤ کے پہلے مرحلے کے لئے پولنگ 7 اپریل کو ہے۔ جیسے جیسے پولنگ کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے چناؤ مہم اپنے شباب پر پہنچ رہی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ 81 کروڑ ووٹروں کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ 1989ء کے چناؤ سے اب تک کسی بھی قومی پارٹی کو اکثریت نہیں مل سکی ہے۔ تقریباً26 سال کے اس سیاسی کھیل میں دو بار غیر کانگریس ،غیر بھاجپا حکومتیں ضرور بنی تھیں جو یا تو کانگریس یا بھاجپا کی بیساکھی پر ٹکی تھیں۔ ان کی میعاد بمشکل دو سال چلی اور اس دوران دیش کئی برسوں پیچھے چلا گیا ہے۔ آج دیش کے سامنے میری رائے میں سب سے بڑا چیلنج دیش میں ایک پائیدار مرکزی سرکار کی ضرورت ہے۔ دیش کے سامنے درجنوں چیلنج منہ کھولے کھڑے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ موجودہ سیاسی پس منظر میں ایک پائیدار سرکار کون دے سکتا ہے۔ یا تو کانگریس دے سکتی ہے یا پھر بھاجپا۔ بدقسمتی سے کانگریس اس حالت میں نہیں لگ رہی ہے کہ وہ 100 سے زیادہ سیٹیں لے سکے گی رہی بھاجپا تو وہ اس وقت سب سے مضبوط متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے۔اس کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی پورے دیش میں ایک قابل تسلیم لیڈرکی شکل میں اپنے آپ کو پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ آج وہ اس صورت میں ہیں کہ دیش کو جس مضبوط لیڈر شپ کی ضرورت ہے اور جس ڈسپلن ،واضح نقطہ نظر اور ترقی اور صحیح ترجیحات کی ضرورت ہے وہ دے سکتے ہیں۔ ایک منٹ کے لئے تصور کیجئے مودی و بھاجپا یا ان کی لیڈر شپ میں اتحاد اقتدار میں نہیں آتا تو کیا؟ کون آگے آئے گایہ صوبیدار جو کبھی اپنی ریاست سے باہر نہیں نکلے کیا یہ دیش چلائیں گے یا پھر اروند کیجریوال جو49 دنوں میں ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایسے کئی تجربے ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔ شری ہردن ہلی دیو گوڑا بیشک دیش کے وزیر اعظم بنیں لیکن وہ کبھی کرناٹک سے باہر نہیں نکلے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کانگریس کا کمزور ہونا اور بھاجپا کا پورے دیش میں صحیح طرح سے پاؤں نہ جما پانا ہماری بدقسمتی ہی مانا جائے گا۔کانگریس کے کمزور ہونے سے علاقائی پارٹیوں کو ابھرنے کا موقعہ ملا جو ووٹ بینک کی سیاست اور کانگریس اور بھاجپا میں چلائی ہے وہی ان صوبیداروں نے اپنا لی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے اپنے صوبوں میں یہ طاقتور ہوگئیں اور دیش کے اقتدار کی چابی ان کے ہاتھ میں آگئی۔ اس بار بہت دنوں کے بعد ایسا موقعہ آیا ہے کہ نریندر مودی ایسے نیتا کی شکل میں آسکتے ہیں جن کی دیش کی ایکتا اور اکھنڈتا کے لئے سخت ضرورت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟