چیلنج بھری ہے راجناتھ سنگھ کی لکھنؤ میں فتح کی راہ!

16 ویں لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کے گڑھ مانے جانے والے لکھنؤ میں امیدوار کے نام بدلنے پر یہاں کے سیاسی ماحول کو دلچسپ اور تلخ بنادیا ہے۔ یہ تلخی کہیں بھاجپا پر بھاری نہ پڑ جائے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اترپردیش میں جو ٹکٹ بانٹے ہیں اس کے پیچھے صدر راجناتھ سنگھ کا رول دیکھا جارہا ہے۔ موجودہ ایم پی لال جی ٹنڈن کی جگہ خود لکھنؤ سے چناؤ لڑ رہے راجناتھ سنگھ کے لئے یہاں مخالفین بھرے پڑے ہیں۔ دراصل راجناتھ سنگھ براہمن اور مسلم تجزیوں کی پھانس میں الجھ گئے ہیں۔ 1951ء سے1991 ء تک بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہاں پاؤں نہ جمانے دینے والا لکھنؤ کا مزاج پھر سے اپنے سخت تیور میں دکھائی دے رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ کانگریس ،سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ لکھنؤ کے 18 لاکھ ووٹروں پر نظر ڈالیں تو تصویر اور صاف ہوجاتی ہے۔ لکھنؤ میں چار لاکھ مسلمان اور ڈھائی لاکھ براہمن ووٹر ہیں۔لکھنؤ مشرق سے کلراج مشرا ممبر اسمبلی ہیں انہیں دیوریا سے امیدوار بنائے جانے کا اثر براہمن ووٹر اور ورکر دونوں میں ہی دکھائی دے رہا ہے۔ راجناتھ سنگھ کو اس ووٹ بینک کو شیشے میں اتار پانا بڑی چنوتی ہوگی کیونکہ ان کی ساکھ پہلے ہی علاقائی حمایتی کی بن چکی ہے۔ مسلمانوں اور براہمنوں کی حمایت حاصل کر بھاجپا کے گڑھ میں سیند ماری کی کوشش کا ہی نتیجہ ہے کہ کانگریس نے یہاں سے ڈاکٹر ریتا بہوگنا جوشی کو ٹکٹ دیا ہے۔ وہ یہاں سے ممبر اسمبلی بھی ہے اور 2009ء میں ہوئے لوک سبھا چناؤ میں محض20 دن پہلے ٹکٹ ملنے کے باوجود دیوریا سے 27 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتے تھے۔ ڈاکٹر جوشی کے ساتھ ایک بات اور جڑتی ہے 1977ء میں ہوئے لوک سبھا کے چناؤ میں ان کے والد ریاست کے سابق وزیر اعلی ہیموتی نند بہوگنا لکھنؤ سے ایم پی چنے گئے تھے۔ لکھنؤ میں ڈھائی لاکھ پہاڑی ووٹ کو کھینچنے کے لئے سماجوادی پارٹی نے ڈاکٹر اشوک باجپئی کو میدان میں اتارا ہے۔ بنیادی طور پر ہردوئی کے باشندے ڈاکٹر باجپئی پچھلے ڈیڑھ سال سے لکھنؤ میں ہی سرگرم ہیں۔ انہوں نے یہاں اپنی موجودگی درج کرانے کی پرزور کوشش کی ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کانگریس ،سپا کے امیدوار کچھ دن پہلے بھاجپا ایم پی لال جی ٹنڈن سے ملنے گئے تھے اور کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ لال جی ٹنڈن نے انہیں اپنا آشیرواد دے دیا ہے۔راجناتھ سنگھ کے لئے یہ بڑی پریشانی کھڑی کر سکتا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی نے نکل دوبے کو یہاں سے میدان میں اتارا ہے۔ اس نے ایسا کرکے براہمنوں اور مسلمانوں کے ساتھ یہاں کے 22 فیصد پسماندہ لوگوں کا ووٹ حاصل کرنے میں چال چلی ہے۔ اگر بسپا اپنی منشا میں کامیاب ہوئی تو ایسی صورت میں بھی راجناتھ سنگھ کے لئے پریشانی بڑھ سکتی ہے۔ اب بات راجناتھ سنگھ کے حریفوں کی۔دیوریا سے ٹکٹ ملنے سے خفا بھاجپا کے سابق پردیش پردھان سوریہ پرتاپ شاہی 16 ویں لوک سبھا کے چناؤ میں جگہ نہ ملنے سے ناراض ہیں اور ونے کٹیار الہ آباد سے ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض ہیں جبکہ کیجری ناتھ ترپاٹھی کی کانپور سے ٹکٹ پانے کی حسرت پوری نہ ہونے پر ناراض چل رہے ہیں۔ کلراج مشر اور اوم پرکاش جیسے سنجیدہ لیڈروں کی لمبی فوج ہے جو راجناتھ سنگھ سے ناراض بتائے جاتے ہیں۔ ان سبھی سرکردہ لوگوں کے حمایتیوں کا بڑا طبقہ لکھنؤ میں ہے رکشے ،تانگے اور گلیوں میں گھومتے پھیری والوں کے ساتھ شاپنگ مال اور حضرت گنج و حسین آباد میں سمیٹے نوابوں کے اس شہر میں بھاجپا خیمہ شروع سے ہی اندرونی حریفوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہر لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کو نقصان پہنچانے کی کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ ایسے میں اب لوک سبھا چناؤ میں یہ بڑا سوال اٹھتا ہے کہ راجناتھ سنگھ کا غازی آباد سے لکھنؤ آنا کتنا خطرے بھرا ثابت ہوگا۔ آدھی صدی تک اٹل بہاری واجپئی کے پرائیویٹ سیکریٹری شیو کمار کو راجناتھ سنگھ اپنی پہلی لکھنؤ یاترا میں ساتھ لیکر آئے تھے ان کے ساتھ لانے کے مطلب چاہے کچھ بھی ہوں لیکن راجناتھ سنگھ کو وہ یہ سندیش دینا چاہ رہے ہیں کہ میں اٹل جی کی وراثت کا اصلی وارث ہوں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟