اترپردیش میں داؤں پر ہے کئی دگجوں کی مان۔پرتشٹھا!

دہلی کا تخت حاصل کرنے کے لئے یوپی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ 80 سیٹوں والیپردیش میں ایک طرف بھاجپا کے پردھان منتری عہدے کے امیدوار نریندر مودی وارانسی سے اپنا وجے رتھ دوڑائیں گے تو کانگریس کے پردھان منتری پد کے چہرے راہل گاندھی اپنی خاندانی سیٹ امیٹھی سے تیسری بار میدان میں اتر کر کانگریس کا جھنڈا لہرائیں گی۔ سماجوادی پارٹی چیف ملائم سنگھ یادو و بہوجن سماج پارٹی چیف مایاوتی بڑی طاقت کے طور پرپہلے سے یہاں جمے ہوئے ہیں۔ کانگریس چیف سونیا گاندھی رائے بریلی سے تو بھاجپا صدر راجناتھ سنگھ لکھنؤ سے اپنی قسمت آزمائیں گے۔ اسی جنگ میں عام آدمی پارٹی بھی کود رہی ہے جس کے نیتا اروند کیجریوال بھی وارانسی سے تال ٹھوک رہے ہیں۔ ورون گاندھی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، آدتیہ ناتھ جیسے ہندو وادی چہرے بھاجپا کا پرچم لے کر دنگل میں اترے ہیں تو راج ببر ،سلمان خورشید، ریتا بہوگنا جوشی کانگریس کے لئے میدان میں ہیں۔ 16 ویں لوک سبھا چناؤسے قبل سماجوادی پارٹی نے دس چناوی سبھاؤ ں میں 8 لاکھ سے زیادہ کی بھیڑ جٹانے کا د عوی کیا۔ یہ ہی حال بی جے پی کا بھی رہا جس نے 8 سبھاؤں میں 40 لاکھ کے قریب لوگوں کو جٹایا لیکن اس وقت لوک سبھا چناؤ کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے چناؤ کمیشن حرکت میں نہیں آیا تھا۔ اب تصویر الگ ہے۔ کانگریس کے نیتا بتاتے ہیں کہ لوک سبھا چناؤ کے دوران سونیا گاندھی 10 جگہوں پر چناوی سبھائیں کرنے والی ہیں۔ جن جگہوں پر سونیا اور راہل کی سبھائیں ہونی ہیں ان میں لکھنؤ، کانپور، الہ آباد، وارانسی، سلطانپور، رائے بریلی، گورکھپور اہم ہیں۔ کل ملا کر یہ لگ بھگ 30 چناوی سبھاؤں کو مخاطب کریں گے۔ وہیں سماجوادی پارٹی کے قومی صدر ملائم سنگھ یادو اور مکھیہ منتری اکھلیش یادو کا 40 سے زیادہ سبھاؤں کو مخاطب کرنے کا پلان ہے۔ اس کے علاوہ یہ دونوں ہی نیتا 20 ہزار کلو میٹر سے زیادہ کا سڑک راستے سے سفر کی اسکیم بھی بنا رہے ہیں۔ ادھر بھاجپا کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی ، نریندر مودی، راجناتھ سنگھ، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی ، سشما سوراج، مہنت یوگی ناتھ جیسے اعلی اور اثر دار لیڈروں کی کئی سبھائیں اترپردیش میں رکھی گئی ہیں۔ وہیں بسپا کی قومی صدر مایاوتی نے یوپی کی سبھی80 لوک سبھا سیٹوں پر چناوی سبھائیں کرنے کے پروگرام کا اعلان کردیا ہے۔ بھاجپا نے جیسے ہی نریندر مودی کا وارانسی سے چناؤ لڑنے کا اعلان کیاویسے ہی سوشل میڈیا پر ان کی تلاش اور تیز ہوگئی۔15 مارچ کو وارانسی سے امیدوار کا اعلان ہونے کے 24 گھنٹے کے اندران کے فیس بک پیج کو40 ہزار لوگوں نے پسند کیا۔ ایتوار شام تک پیج کو 1 لاکھ14 کروڑ سے زیادہ لوگ پسند کرچکے تھے۔ٹوئٹر پر بھی ان کے فالوور کی تعداد میں 40 لاکھ کا اضافہ ہوا۔ ان کے ہیش ٹیگ #myvoteformodi پر بھی ایک منٹ میں قریب 100 ٹوئٹ آرہے ہیں۔اس کے برعکس مودی کے خلاف چناؤ لڑ رہے اروند کیجریوال کی مقبولیت سوشل میڈیا میں تیزی سے گھٹی ہے۔ ان کے آفیشیل فیس بک پیج کو 10 مارچ سے16 مارچ کے دوران صرف 61 ہزار لوگوں نے لائک کیا ہے۔ اس کے پلے ہفتے میں یہ تعداد 71 ہزار سے اوپر تھی۔ ٹوئٹر پر بھی ان کے فالوور کی تعداد 15 لاکھ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟