مایاوتی نے پھر دکھائی اپنی سیاسی طاقت!

شری نریندر مودی، اروند کیجریوال کی گذشتہ کچھ دنوں سے ٹی وی اور اخبارات میں اتنی چرچا ہوئی کے لوگ بسپا چیف سو شری مایاوتی کو تو بھول ہی گئے تھے۔ بہن جی نے اپنی موجودگی درج کرانے کے لئے اور دیش کو یہ بتانے کے لئے کہ آج بھی وہ ایک راجنیتک طاقت ہیں لکھنؤ میں ایک شاندار ریلی کی۔ اترپردیش کی سابق مکھیہ منتری مایاوتی نے بدھوار کو کانگریس ۔ بھاجپا۔ سپا پر چوطرفہ حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بسپا کے بڑھتی طاقت کو روکنے کے لئے تینوں پارٹیاں اندر خانے ایک ہیں۔ انہوں نے کارکرتاؤں سے کہا کہ وہ ان تینوں کے گٹھ جوڑ سے لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ مایاوتی نے یہ بھی صاف کیا کہ بہوجن سماج پارٹی اگلے لوک سبھا چناؤ میں یوپی سمیت پورے ملک میں اکیلے چناؤ لڑے گی۔ لکھنؤ کے رمابائی امبیڈکر میں مایاوتی نے اپنے 58 ویں جنم دن پر منعقد راشٹریہ ساودھان ریلی میں ایک وشال جن ریلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سپا سرکار نے آتے ہی بسپا کی کئی عوامی مفاد کی اسکیموں کو بند کردیا۔ بہن جی نے کہا کہ دلتوں کی دردشا دیکھ کر کانشی رام نے 14 اپریل 1984ء کو بسپا کی بنیاد رکھی تھی۔ تب سے پارٹی کو سب نے مل کر کئی طرح سے توڑنے کی کوشش کی پر کارکرتاؤں نے ہمارا ساتھ دیا۔ 2009ء میں لوک سبھا چناؤ کے وقت کانگریس، بھاجپا اور سپا ایک جٹ ہوگئے اور بسپا کے خلاف چناؤ لڑا اس کے باوجود ہم 20 سیٹوں پر جیتے اور 47 پر دوسرے نمبر پر رہے۔ 2012ء میں بھی ودھان سبھا چناؤ میں تینوں نے مل کر بسپا کے خلاف چناؤ لڑا۔ اگر بسپا کا کوئی دیگر ذات کا نیتا ہوتا تو یہ ایسا نہیں کرتے لیکن یہ لوگ ایک دلت لڑکی کو مکھیہ منتری بنے نہیں دیکھ سکتے۔ مایاوتی نے اعلان کیا کہ دیش کی دِشا اور دَشا سدھارنے کے لئے اگلے لوک سبھا چناؤ کے بعد دہلی میں ستہ کا سنتولن بسپا کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو بسپا دیش میں سمپردائک طاقتوں کو حاوی نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے ملائم سنگھ یادو ، نریندر مودی اور کیجریوال پر جم کر حملے کئے۔ ان نیتاؤں کو دلت ورودھی ذہنیت سے تربتر ہونے کا الزام لگایا ۔ بہن جی پوری فارم میں تھیں اور انہوں نے اپنے 48 منٹ کے بھاشن میں لگ بھگ ہر مدعے پر تفصیل سے چرچا کی۔ دہلی کے حال میں ہوئے ودھان سبھا چناؤ میں بسپا کی پرفارمینس اچھی نہیں رہی۔ اس کے ووٹوں کا فیصد 14 سے گر کر2 فیصدی پر آگیا۔ یہ بتاتا ہے کہ صرف اپنے نیتا کے ساتھ جذباتی جڑاؤ ایک راجنیتک پارٹی کی مستقل طاقت کے لئے کافی نہیں ہے لیکن اس کا اچھا پہلو یہ ہے کہ اپنے گرہ راجیہ میں جو کہ مایاوتی کی مکھیہ کرم بھومی ہے ، ان کا بنیادی افان ان کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ کسی ہوا میں بہہ کر جلدی ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ لوک سبھا 2014ء کے چناؤ میں دہلی کی حکومت کا راستہ اترپردیش سے ہوکر جاتا ہے۔ 80 سیٹوں والے اس پردیش میں بھاجپا 50-60 سیٹوں کا نشانہ لیکر چل رہی ہے۔ کانگریس کی حالت خستہ ہے۔ بسپا سے گٹھ بندھن کی بات ہوا میں چل رہی ہے۔ اروند کیجریوال اینڈ کمپنا بھی مایاوتی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔سپا کی کارگزاری اتنی خراب رہی ہے کہ میں اسے 2014ء لوک سبھا چناؤ میں کوئی بڑی شکتی نہیں مانتا۔ بیشک ملائم سنگھ پی ایم بننے کے خواب دیکھ رہے ہوں پر آج کی بسپا ایک بڑی شکتی ہے اور 2014ء میں قابل ذکر کردار نبھا سکتی ہے۔ مایاوتی کوامید ہے کہ وہ اتنی سیٹیں جیت لیں جس سے اگلی سرکار میں بسپا کا اہم رول رہے۔ دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟