نقلی نوٹ و کالی کمائی کو روکنے کیلئے ریزرو بینک کا تازہ حکم!

ریزرو بینک آف انڈیا نے 31 مارچ 2005 ء سے پہلے کے چھپے سبھی نوٹوں کو واپس لینے کا فیصلہ لیا ہے۔ بدھوار کو جاری بیان میں آر بی آئی نے کہا کہ 31 مارچ2014ء تک بینک سبھی پرانے نوٹوں کا چلن بند کردے گی۔ اگر آپ نے اپنی گاڑھے پسینے کی کمائی گھر یا بینک کے لاکروں میں نوٹوں کی گدی کی شکل میں رکھی ہوئی ہے تو ہوشیار ہوجائیے۔ فوراً جانچ کیجئے کہ یہ نوٹ کس سال میں چھپے ہیں۔ اگر یہ سال2005 سے پہلے کے ہیں تو ان کی قیمت آنے والے دنوں میں کوڑے کی رہ جائے گی۔ نوٹ کے پچھلے حصے میں سب سے نیچے اشاعت کا برس لکھا ہوتا ہے۔ جن نوٹوں پر اشاعت کا برس نہیں ملتا اس کا مطلب ہے کہ وہ نوٹ سال2005ء سے پہلے کا چھپا ہوا ہے۔ سرکار کا خیال ہے کہ اس قدم سے کالی کمائی کے استعمال پر روک لگ سکے گی۔ اس قدم کو آنے والے لوک سبھا چناؤ سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ بازار میں بڑے پیمانے پر موجود کالے پیسے پر لگام لگ سکے گی۔ شناختی کارڈ دکھانے کے سبب بڑے نوٹوں میں نقدی کا انکشاف ہوگا۔ اپریل ۔ مئی میں امکانی طور پر لوک سبھا چناؤ میں کالی کمائی کے استعمال پر روک لگ سکے گی۔ 2009ء لوک سبھا چناؤ میں سی ایم ایس کی رپورٹ کے مطابق 2500 کروڑ روپے کی کالی کمائی کا پیسہ چناؤ میں لگا تھا۔ ویسے 1978ء میں جنتا پارٹی کے وقت میں 1000,5000 اور 10000 نوٹ ریزرو بینک نے واپس لے لئے تھے لیکن اس بار سبھی طرح کے نوٹوں پر شرط لاگو ہوگئی ہے۔ بی جے پی اسے چناؤ سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے۔ پارٹی کا خیال ہے کہ کالی کمائی کے معاملے میں سرکار کا یہ محض دکھاوٹی قدم ہے۔ جن کے گھر پر بے تحاشہ غیر اعلانیہ پیسہ ہے وہ اس رقم کو ٹکڑوں میں بینک میں جاکر بدل لیں گے اور پھر نئے نوٹ لاکر میں رکھ دیں گے۔ 65 فیصدی لوگوں کے پاس کھاتے نہیں۔ کسی نے مکان کے لئے پیسے جوڑے ہیں، کسی نے لڑکی کی شادی کے لئے، کسی نے لڑکے کی پڑھائی کے لئے توکسی نے بیماری کی صورت میں مشکل حالات کیلئے۔ ایسے لوگوں کو نوٹ بدلنے میں کافی دقت ہوگی۔ ویسے آر بی آئی نے یہ تو صاف نہیں کیا کہ بازار میں 2005 سے پہلے کے کتنے نوٹ ہیں لیکن واقف کاروں کا خیال ہے کہ یہ 5.7 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ دہلی کے تھوک بازار سے خوردہ بازار تک اس نئے فرمان سے کھلبلی مچنا فطری ہے۔ جیولری کو بیش قیمتی اور نقدی پر بیچنے والے تاجروں اور امپورٹرس نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ لوگوں کے پاس وسیع پیمانے پر نقدی بھری پڑی ہے جو اسے بدلنے اور کھپانے کی پریشانی میں ڈوب گئے ہیں لیکن ہر آدمی کو اب نوٹ لینے پر اس کی جانچ کرنی ہوگی جو ایک نیا درد سر بن جائے گا۔ دیش میں نقلی نوٹوں کی بھرمار اور کالی کمائی پر مچے ہنگامے کے بعد یہ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ریزرو بینک اس سلسلے میں کارروائی ضرور کرے گا۔ پچھلے دنوں واویلا مچا تھا نوٹوں پر اگر کچھ لکھ کر اسے گندا کردیا گیا تو ایسے نوٹ بینک میں چل نہیں پائیں گے۔ اس افواہ سے پورا دیش تشویش میں مبتلا ہوگیا کیونکہ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو جب لوگوں کے پاس ایسے نوٹ نہ آتے ہوں۔ بعد میں ریزرو بینک نے اس افواہ کی تردید کردی۔ ریزرو بینک کے تازہ فرمان سے لوگوں میں کھلبلی مچ سکتی ہے۔ جس نے نوٹ بدلنے کی میعاد طے کی ہے۔ جولائی 2014 تک اپنے نوٹ بدل لیں تو ٹھیک ہے۔ لیکن جو کسی وجہ سے رہ جاتے ہیں تو اسے 500 یا 1000 کے 10 سے زیادہ ایسے نوٹوں کو بدلوانے کے لئے اپنی پہچان ،پتہ بینک کو بتانا ہوگا یا پین کارڈ دکھانا ہوگا۔ واقف کاروں کا کہنا ہے جعلی نوٹوں کے سیلاب اور کالی کمائی پر قابوپانے کے لئے یہ نئی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔ مارچ2012 تک ایک اندازے کے مطابق دیش میں قریب پانچ لاکھ جعلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ پریشانی کی بات یہ تھی کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس میں31 فیصدی اچھال دکھائی دیا تھا۔ مانا جارہا ہے کہ 2005 کے پہلے والے نوٹوں کی سیریز میں سب سے زیادہ جعلی نوٹ چلائے جارہے ہیں کیونکہ اس کے بعد سے نوٹوں کا دیزائن اور سکیورٹی اقدامات کو پختہ بنانے کی کوشش ہوگئی تھی۔ سب سے زیادہ دقت تو سیاستدانوں ،افسروں کو ہوگی کیونکہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ ان کے پاس سب سے زیادہ کالی کمائی کا پیسہ ہے۔ لیکن انہوں نے آر بی آئی کے اس فرمان کے جاری ہونے سے پہلے اپنا پختہ انتظام کرلیا ہوگا۔ اصل مصیبت تو چھوٹے دوکانداروں، نوکری پیشہ مزدوروں کی ہوگی جس نے ضروری کاموں کے لئے ایک ایک روپیہ جوڑا ہے وہ کہاں بینکوں کی لائن میں لگیں گے۔ روٹی کمائے گا یا گھنٹوں میں لائن میں لگے گا؟ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 2005 میں مارچ مہینے تک دیش میں پونے چار لاکھ روپے کرنسی بازار میں تھی جو اگلے 8 برسوں میں تین گنا بڑھ کر ساڑھے گیارہ لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ پہنچ گئی ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟