کانگریس کے حکمت عملی سازو ں کا چالاک راستہ: سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو حمایت دینے پر تنازعہ جس طریقے سے ختم ہوا اس کے دو پہلو ہیں پہلا یہ کہ آپ پارٹی اور کانگریس کی ملی بھگت کی یہ ایک اور مثال ہے۔ دوسری طرف کانگریس حمایتی کہہ رہے ہیں کہ مرکزی سرکار اور خاص کر وزارت داخلہ کے سخت رویئے کی وجہ سے یہ ڈرامہ ختم ہوا ہے۔ پہلے نظر ڈالتے ہیں ’آپ‘ پارٹی اور کانگریس کی ملی بھگت پر۔ کہا تو یہ جارہا ہے کہ عام آدمی پارٹی اور ان کے ذریعے پیدا کئے جارہے بدامنی جیسے حالات میں کانگریس بھی برابر کی حصے دار ہے۔ اس کے حکمت عملی ساز سمجھتے ہیں کہ کانگریس کے خاص حریف نریندر مودی کو ٹی وی کے پردے اور عام بحث سے ہٹانا ہے تو ’آپ‘ کے ہائے ہلا کو جتنا بڑھا وا ملے گا بھاجپا کو اتنا ہی زیادہ نقصان ہوگا۔ بھلے ہی کانگریس کا فائدہ ہو یا نہ ہو۔ کانگریس ہائی کمان کی جانب سے شندے کو صاف ہدایت دی گئی تھی کہ وزیر اعلی کیجریوال کی مانگ کو کسی بھی حال میں نہ مانا جائے جس سے کہ ان کو آندولن کرنے کا بھر پور موقعہ ملے۔ اور جب تک 26 جنوری بالکل پاس نہ آجائے تب تک انہیں دھرے کی جگہ سے ہٹانے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ کانگریس کی یوتھ ونگ این یو ایس آئی کے لوگ بھی کیجریوال کے حمایتیوں کے بھیس میں بھیج دئے گئے تھے جو تحریک کو ہڑدنگ بنانے میں کافی اہم کردار نبھا رہے تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ راشٹرپتی بھون اور اس کے آس پاس کے علاقے کو تحریک کی آڑ میں اپنے قبضے میں لے چکے بدامنی پسند عناصر کے خلاف مرکزی سرکار کسی طرح کی سختی نہیں برت رہی تھی۔ دوسری طرف کیجریوال نہ صرف وزیر داخلہ شندے کو بے عزت کررہے تھے بلکہ پورے راج پتھ کو لوگوں سے بھرنے کی دھمکی دے رہے تھے اور ان کے حمایتی مرکزی وزراء سے ہاتھا پائی بھی کررہے تھے۔ کانگریس لیڈر شپ ہاتھ پر ہاتھ رکھے تماشہ دیکھ رہی تھی۔ کیجریوال کی زبان اور تمیز پر تعجب ہوتا ہے کہ جب وہ کہتے ہیں شندے کون ہے؟ کیا شندے ہمیں بتائے گا کہ ہم کہاں بیٹھیں؟باقی ساری باتیں چھوڑ بھی دیں تو ایک وزیر اعلی کو دیش کے وزیر داخلہ سے اس طرح سے برتاؤ نہیں کرنا چاہئے۔ ان سب کے باوجود اگر کانگریس لیڈر شپ تماشہ دیکھ بھی رہی تو اس کا مطلب کیا ہوا؟ کانگریس لیڈر سرکاری طور پر تو کیجریوال کو برا بھلا کہہ رہے ہوں لیکن اندر خانے خوب چٹخارے لے رہے تھے۔ وہ صرف اس بات سے خوش ہیں کہ پچھلے کئی دنوں سے نریندر مودی ٹی وی سے غائب رہے۔ کانگریس کے ایک بڑے نیتا کا کہنا ہے کہ دہلی کی طرح مرکز میں بھی کیجریوال بھاجپا کا کھیل بگاڑنے والے ہیں۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے اگر چناؤ بعد کسی تیسرے مورچے کی سرکار بننے کی نوبت آئی تو کانگریس بھاجپا اور نریندر مودی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے اپنی باہری حمایت اسے دے سکتی ہے۔ سیاسی داؤ پیچ اور چالوں میں ماہر کانگریسیوں کو یہ معلوم ہے کے کب ڈھیل دینی ہے کب سختی دکھانی ہے۔ جیسے جیسے 26 جنوری کی پریڈ قریب آتی گئی پارٹی کے حکمت عملی سازوں نے کہا کہ اب سختی کرنے کا وقت آگیا ہے۔ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ ایک مضبوط منتظم ہیں اور ان کے سخت رخ کی حمایت پی ایم نے بھی کی ہے اور کانگریس صدر سونیا گاندھی نے بھی۔ انہوں نے ایسا راستہ تلاشنے کے لئے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ سے کہا کہ ایسا راستہ نکالیں جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ وزارت داخلہ نے جیب جنگ سے رابطہ قائم کیا اور تب جاکر مسٹر جنگ نے کوشش شروع کی۔ انہوں نے دو پولیس ملازمین کو چھٹی پر بھیج کر کیجریوال کو منہ چھپانے کا راستہ دے دیا اور کیجریوال سے یوم جمہوریہ کے وقار کو دیکھتے ہوئے ان کی جزوی مانگ کو مان لیا اور دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی۔جس کو کیجریوال فوراً مان گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کیجریوال کا دھرنا ختم کرنے سے پہلے پولیس کو لاٹھی چارج کرنے کا بھی حکم دے دیا تاکہ کیجریوال کو ڈنڈے کی زبان بھی سمجھ میں آجائے۔ اس ملی بھگت سے دونوں مرکزی سرکار و وزارت داخلہ یہ ظاہر کرنے میں کامیاب رہے کہ مرکزی سرکار نے تو دہلی سرکار کو پولیس دے گی اور نہ ہی ’آپ‘ سرکار کو بد امنی پھیلانے کی اجازت۔ کیجریوال کو بھی منہ چھپانے اور کھسکنے کا بہانہ مل گیا۔ کیجریوال کو تو اپنی صحت کی بھی فکر نہیں تھی۔ اگر وہ کھانسی کی حالت میں ایک دن رات کھلے میں پڑے رہتے تو یقیناًانہیں نمونیا ہوسکتا تھا۔ کیوں ہے یا نہیں یہ ملی بھگت؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟