سڑک چھاپ سیاست کے ماہر ہیں اروند کیجریوال!

پیر کے روز دیش کی راجدھانی دہلی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی شاید کبھی نہیں دیکھا گیا۔ دہلی پولیس کے تین افسروں کو معطل کرنے کے مطالبے پر اڑی کیجریوال کی دہلی حکومت سڑک پر اتر آئی ہے۔ یہ ممکنہ پہلی بار ہی ہے جب کوئی وزیر اعلی اس طرح مرکز کے خلاف دھرنے پر بیٹھا ہو جس طرح21 دن پرانی دہلی سرکار کے وزیر اعلی اروند کیجریوال بیٹھے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ عام آدمی پارٹی اور حکومت کے حمایتی آج کیجروال کو ہیرو مان رہے ہوں اور ان کے اس قدم کی جم کر تعاریف کررہے ہوں لیکن ہمارا خیال ہے کہ ذمہ دار آئینی عہدے پر بیٹھے اروند کیجریوال نے بہت ہی غیر آئینی کام کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف آئین کی دھجیاں اڑائی ہیں بلکہ اپنے حمایتیوں سے بھی دھوکہ کیا ہے۔ جنتا نے انہیں اس لئے نہیں چنا تھا کہ وہ ایک چھوٹے سے اشو پر مرکزی سرکار سے ہی ٹکرا جائیں؟ 26 جنوری کی یوم جمہوریہ پریڈ میں بھی رکاوٹ پیدا کردیں کیونکہ کیجریوال جنتا کے پیچیدہ مسئلوں کا حل نہیں کرپا رہے ہیں، اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرپا رہے ہیں اس لئے عوام کی توجہ بٹاٹے کے لئے اس طرح کی بدامنی پیدا کررہے ہیں اور یہ انہوں نے خود بھی مانا۔ انہوں نے کہا’’ اگر مجھے انارکسٹ کہتے ہو تو میں انارکسٹ ہوں۔‘‘ ایک وزیر اعلی اگر یہ کہے کہ ہاں میں بدامنی پسند ہوں تو دیش کو وہ کس طرف لے جانا چاہتے ہیں؟ وہ اور ان کے ساتھی بار بار دوہراتے ہیں کہ ہمیں تو دیش کا سسٹم بدلنا ہے یعنی آپ پارٹی نہ تو بھارت کی جمہوریت میںیقین رکھتی ہے اور نہ ہی جمہوری نظام پر۔ پھر کیجریوال اینڈ کمپنی اور نکسلیوں، ماؤ وادیوں میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ وہ بھی تو یہ ہی بات کہتے ہیں کے ہتھیار سے سسٹم کی تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ پارٹی ووٹ کے بدلے گولی سے کام لینا چاہتی ہے۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے تین چار معاملے درج نہ کرنے کے لئے پولیس ملازمین کی معطلی یا تبادلے کی مانگ اتنی بڑی نہیں ہے کہ اس کے لئے ایسا قدم اٹھایا جائے۔ عام طور پر ایسی مانگ کے لئے سیاسی پارٹیوں کی ضلع یا محلہ سطح کی یونٹیں تحریک چلاتی ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی جنگ میں ایٹم بم کا استعمال آپ پارٹی کا ہتھیار بن گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بھارت میں پولیس نظام بہت خراب ہے اور اس میں کرپشن اور نا اہلیت اور غیر ذمہ دارانہ رویہ موجود ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان اشوز پر آپ کے دو وزرا سومناتھ بھارتی اور راکھی برلا کا پولیس سے ٹکراؤ ہوا تھا ان میں پولیس کی لاپروائی ہو لیکن آپ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر پولیس کا یہ قصور ہے تو وہ چھاپہ مار لڑائی یا دھرنے سے دور ہونے سے رہا۔ یہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے جوڈیشیل انکوائری کے احکامات دئے تھے کیا کیجریوال اینڈ کمپنی کو جانچ کے نتائج کا انتظار نہیں کرنا چاہئے تھا؟ اس سے مجھے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی نظر آتی ہے۔ ممکن ہے کہ سومناتھ بھارتی پلاننگ اور حکمت عملی کے تحت مالویہ نگر کے کھڑکی ایکسٹینشن میں گئے اور پولیس ،وزارت داخلہ اور مرکزی سرکار سے ٹکرانے کے لئے اسے بہانا بنایا گیا ہو؟ا یک پیٹنٹ نظر آنے لگا ہے۔ آپ کے تھنک ٹینک کے ایک دوسرے ممبر پرشانت بھوشن کشمیر میں فوج ہٹانے کی بات کررہے ہیں تو کیجریوال پولیس سے ٹکرا رہے ہیں یعنی بھارت کے نظام سے ٹکراؤ۔ فوج اور پولیس کسی بھی سرکار کے دو اہم حصے ہیں ان سے سیدھا ٹکرانا آئین اور جمہوری نظام کو چنوتی دینا ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ کانگریس پارٹی اور یوپی اے سرکار خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے۔جس پارٹی کی حمایت پر ٹکی کانگریس بھلے ہی کھلے عام کہتی ہے دیکھنا ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں جنتا کانگریس کو کیسا سبق سکھاتی ہے۔ کانگریس کا اپنا ہی گیم پلان ہے وہ اس سرکار سے حمایت واپس نہیں لے گی۔ کم سے کم لوک سبھا چناؤ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے تک تو نہیں۔ اور یہ نوٹیفکیشن جاری ہونے سے ٹھیک پہلے شاید وہ حمایت واپس بھی لے لے لیکن اس میں بھی شبہ ہے کیونکہ کانگریس نے گیم پلان کے تحت ہی ’آپ‘ پارٹی کو کھڑا کیا ہے۔ اسے امید ہے کہ آپ پارٹی لوک سبھا چناؤ میں اتنی سیٹیں لے لے جس سے بی جے پی اور نریندر مودی اس جادوئی نمبر272+ تک نہ پہنچ پائیں۔ اس چکر میں دیکھنا یہ ہوگا ’’آپ‘‘ کانگریس اور اس یوپی اے سرکار کو بھارت کی جمہوریت کو اور بھارت کے آئین کو کتنا نقصان اور پہنچائے گی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟