آخر کار پوری ہوئی جین سماج کی پرانی مانگ!

لوک سبھا چناؤ کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے جین فرقے کو قومی سطح پر اقلیتی درجہ دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں اقلیتی امور وزارت کی سفارش کو منظوری دے دی ہے۔ اقلیتی درجہ حاصل ہوتے ہی جین سماج کو سرکاری ملازمت میں ریزرویشن اور مرکز کی مختلف اسکیموں کا فائدہ مل سکے گا۔ اس فیصلے سے سرکار نے 2014ء لوک سبھا چناؤ سے ٹھیک پہلے دیش بھر کے 60 لاکھ سے زیادہ جین سماج کے لوگوں کو لبھانے کی کوشش کی ہے۔ راجستھان، دہلی ، مدھیہ پردیش، کرناٹک، اترپردیش میں اس فرقے کے لوگوں کی خاصی تعداد ہے۔ دہلی مدھیہ پردیش راجستھان سمیت تقریباً درجن بھر سے زیادہ ریاستوں میں پہلے ہی جین فرقے کو ریاستی سطح پر اقلیتی درجہ دیا جاچکا ہے۔ جین سماج کا ایک طبقہ قومی سطح پر اقلیتوں کو درجہ دینے کے لئے کئی دہائیوں سے مانگ کرتا آرہا ہے۔ ویسے مرکزی حکومت نے ووٹ بینک سیاست کے چکر میں جین فرقے کو اقلیتی درجے میں شامل کرنے کا سیاسی ارادہ پہلے ہی بنا لیا تھا مگر چناؤ سے پہلے اس کا سہرہ راہل کے سر باندھنے کے لئے ایتوار کو اس کی کہانی لکھی گئی۔ جین فرقے کو اقلیتی درجہ دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے چناوی موسم میں راہل گاندھی کی ایک اور یقین دہانی پر مہر لگادی۔ یہ فیصلہ نائب صدر راہل گاندھی کی جین نمائندوں سے ملاقات کے بعد آیا ہے۔ مرکز کے اس فیصلے کے بعد جین مذہب مسلمان، سکھ ،عیسائی، پارسی اور بودھ فرقے کے بعد اقلیتی زمرے میں شامل ہوگیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقلیتی طبقے میں شامل ہونے کے بعد جینیوں کو مرکزی اسکیموں کے بعد الاٹمنٹ کے ساتھ فلاحی اسکیموں، وظیفوں کا بھی فائدہ مل سکے گا۔ اس کے علاوہ انہیں تعلیمی ادارے چلانے کا بھی خاص اختیار مل جائے گا۔ ویسے عام طور پر جین سماج میں زیادہ تر کاروباری ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کے بہت زیادہ جینیوں کو اس درجے میں شامل ہونے میں زیادہ دلچسپی ہوگی۔ جین فرقے کو اقلیتی درجہ دینے کے خلاف لوگوں کا خیال ہے کیونکہ جین سماج ایک مذہبِ خاص ہے اس لحاظ سے اسے خاص درجہ دینا اس سماج کو بانٹنے کے برابر ہے۔ ہندوؤں نے کبھی بھی جین فرقے کو الگ نہیں سمجھا۔ آج چاہے سیاست کا میدان ہو، کاروبار کا سیکٹر ہو،تہوار ہو، زندگی جینے کا طریقہ ہو جین سماج زیادہ تر ہندو سماج سے جڑا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے جیناگم اور تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جین مذہب دنیاکے قدیم ترین مذاہب میں سے ہے۔ یہ ایک آزاد مذہب ہے۔نا کہ ویدک مذہب کی شاخ ہے اور نہ ہی بودھ دھرم کی۔ قدیمی وراثت اور زبان اور سائنس ادب وغیرہ سے صاف ہے کہ ویدک دور سے بھی پہلے بھارت میں ایک بہت باشعور کلچر تھا۔ یہ کلچر آج جین کلچر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جین مذہب اپنے بنیادی اصول اور روایت اور تاریخ گرنتھ ہیں جو اسے دیگر مذاہب سے الگ کرتے ہیں۔ ذات اور مذہب کی بنیاد پر منڈل کمیشن نے بھی جین فرقے کو غیرہندو مذہبی گروپ میں شامل مسلم سکھ ،بودھ، عیسائیوں کے ساتھ رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اور منموہن سرکار نے کافی سوچ سمجھ کر ہی یہ فیصلہ لیا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟