افغانستان چھوڑنے پر امریکیوں کی بیتابی

امریکی صدر براک اوبامہ نے اعلان کیا ہوا ہے کہ 2014ء میں امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں ہٹا لے گا۔ جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آرہی ہے ، امریکہ بے چین ہورہا ہے۔ اب وہ اس حد تک جانے کو تیار ہے کہ اپنے کٹر دشمن جس کے خلاف وہ برسوں سے لڑ رہا ہے ، سے بھی بات چیت کو تیار ہے۔ 9/11 کے آتنکی حملے کے بعد امریکہ نے افغانستان میں طالبان کو ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔ طالبان تو ختم نہ ہوپائے مگر اس کا سرغنہ اسامہ بن لادن ضرور مارا گیا۔2011ء کی گرمیوں میں ناٹو فوجوں کی واپسی شروع ہوئی تھی اور اب تک 10 ہزار امریکی فوجی وطن لوٹ چکے ہیں۔ 2013ء میں باقاعدہ طور سے ناٹو افواج نے افغانستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری افغانی فوجیوں کو سونپ دہی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے طالبان القاعدہ سے اپنے رشتے توڑ لیں لیکن طالبان کی ضد ہے کہ پہلے غیر ملکی افواج افغانستان خالی کریں۔ وہ امریکی قید میں پڑے اپنے کمانڈروں کی رہائی چاہتا ہے۔ اسی کو لیکر بات چیت ہوگی۔ افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے امریکہ اپنے کٹر مخالف طالبان سے بات چیت کرنے کو ایک بار پھر رضامند ہوگیا ہے۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے امریکہ کی طالبان کے ساتھ طے بات چیت کو افغانستان میں جنگ بندی کی سمت میں اٹھایا گیا پہلا اہم قدم قراردیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی آگے کی مشکل کا سفر کو لیکر آگاہ کیا ہے کہ امریکی حکام قطر میں کھولے طالبان کے نئے دفتر میں اس کے نمائندوں سے ملنے کا پلان ہے۔ طالبان نے قطر کی راجدھانی دوحہ میں گذشتہ دنوں باقاعدہ طور پر اپنا دفتر قائم کیا ہے۔ امریکی حکام اس دفتر کے ذریعے طالبان کمانڈروں سے رابطہ قائم کریں گے۔ اس پہل میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کی منظوری بھی حاصل ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری پیر کو ہند۔ امریکہ حکمت عملی بات چیت کے چوتھے دور کے لئے نئی دہلی تشریف لا چکے ہیں۔کیری افغانستان سے متعلق بھارت کی تشویشات کے بارے میں دو ٹوک بتانا چاہئے۔ تشویش کی بات تو یہ ہے طالبان نے کسی بنیادی شرط پر اپنا موقف نہیں بدلا اس کے باوجود امریکہ اس سے سیدھی بات چیت کے لئے تیار ہے۔ طالبان نے صرف یہ شکایت کی کہ کرزئی حکومت کے نمائندوں کے سامنے بات چیت کی میز پر بیٹھنے کو تیار ہوگیا ہے جسے پہلے وہ مغربی ممالک کی کٹھ پتلی بتاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود اپنے بیان میں اس نے افغانستان کو’’اسلامی امارات‘‘ کہہ کرمخاطب کیا ہے۔ سیکولرازم موجودہ آئین کی حفاظت کے تئیں اپنے کوئی وعدے کے بارے میں عہد نہیں ظاہر کیا ہے نہ ہی اقلیتوں و خواتین کے مفادا کی حفاظت کا کوئی وعدہ کیا ہے۔ دراصل وہ امریکی منشا کے مطابق القاعدہ سے الگ ہے اور اعلان کرنے پر بھی راضی نہیں ہوا ہے۔ بس اتنا کہا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے لئے خطرہ پیدا کرنے کے لئے افغانستان کی سرزمین کا استعمال نہیں ہونے دے گا۔ اس کے باوجود امریکہ بات چیت کے لئے تیار ہوگیا ہے اس کی وجہ یہ ہی مانی جاسکتی ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اگلے سال کے درمیان تک افغانستان سے پیچھا چھڑانے کے لئے بیتاب ہے۔ بھارت کا افغانستان کے اندرونی حالات پر بہت کچھ داؤ لگا ہوا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے سامنے بھارت کو اپنے اندیشات کو کھل کر ظاہر کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے ڈپٹی ناظم الامور منجیت پوری نے کہا کہ افغانستان میں پچھلے دو مہینوں میں کئی آتنکی حملے یہ ظاہرکرتے ہیں کہ اس دیش میں سکیورٹی کے حالات کمزور ہوئے ہیں۔ پوری نے کہا کہ طالبان القاعدہ اور لشکر طیبہ اور دیگر آتنکی کٹر گروپوں کو الگ الگ کرنے اور ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ممبروں سے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں ہورہی تبدیلی اور اس کی قیادت میں اور اسی طرح سے کی جائے۔ یہ تبدیلی کثیر الراحت ہونی چاہئے۔ اسے افغانستان کے سبھی لوگوں کی سلامتی یقینی کرنی چاہئے۔انسانی حقوق کا احترام ہونا چاہئے۔ اسے افغانستان سرکار اور اس کے اداروں کو مضبوط بنانا چاہئے۔ انہوں نے کہا افغانستان میں حالات اور اقتصادی ترقی اس کے پڑوسی ملکوں پر کافی منحصر کرتی ہے۔ امریکہ بھلے ہی طالبان کی کٹر پسند حکومت کی واپسی کے اندیشے سے فکرمند نہ ہو افغانستان جن طاقتوں اور آس پاس کے ملکوں کے مفادات پر اس سے چوٹ پہنچے گی اور وہ چپ نہیں رہ سکتے۔ ان دیشوں میں بھارت بھی ہے جس میں پچھلے ایک دہائی میں وہاں اندرونی سکیورٹی اور بنیادی ڈھانچے میں کافی پیسہ لگایا ہے۔ پھر طالبان کے ذریعے افغانستان۔ پاکستان فوجی گٹھ جوڑ نہ بن جائے یہ قطعی بھارت کے مفاد میں نہیں ہے اس لئے یہ مناسب ہوگا کہ ان اشوز پر جان کیری سے بیلاگ بات کی جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟