گربھ گرہ کی تصویریں کھینچنے سے پرانی روایات اور تقدس ٹوٹیں،ذمہ دار کون


یہ انتہائی دکھ اور مایوسی کا موضوع ہے کہ قدرتی آفت کے بعد کیدارناتھ مندر کے تقدس اور یہاں کی برسوںپرانی روایات اور رسموں کو تار تار کیا جارہا ہے۔ کئی نیتائوں کی شے پر ٹی وی میں ان دنوں پورے دیش اور دنیا میں گربھ گرہ کی تازہ تصویریں دکھائی جارہی ہیں۔ پچھلے سال اگست میں جب میںاور میرے ساتھی کیدارناتھ درشن کے لئے گئے تھے تو ہم نے گربھ گرہ کی تصویریں نہیں کھینچیں تھیں صرف باہر سے ہی تصویریں لی تھیں۔ سبھی مسافر و شردھالو ہزاروں برسوں سے اسی روایت پر عمل پیرا ہیں۔ آج تک کسی نے گربھ گرہ کی تصویر نہیں دیکھی تھی لیکن پچھلے کچھ دنوں سے ہر ٹی وی چینل میں یہ بریکنگ نیوز بنی ہوئی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ وہاں ان ٹی وی والوں کو روکنے والا کون ہے؟مندر کے پجاری ،وہاں کے مندر کمیٹی کے لوگ، سیوادار سبھی تو اپنی جان بچانے کے لئے بھگوان کو چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے میری رائے میں مندر کے بڑے پجاری و دیگر پجاریوں کو مندر چھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہئے تھے۔ ہماری روایتیں یہی کہتی ہیں۔ آخر وہ تو کیدار بابا کی سیوا، پوجا ارچنا کے لئے ہی موجود تھے۔ ان کی اور ان کے کنبے کی پرورش کیدارناتھ مندر سے ہی ہوتی ہے۔ جب پانی آیا تو سب اپنی جان بچانے میںلگ گئے بھگوان کی کسی کو فکر نہیں ہوئی اور پہلا موقعہ پاتے ہیں ہیلی کاپٹر پر چڑھ گئے انہیں وہیں رہنا چاہئے تھا چاہے اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جاتی۔ انہیں اپنی آن اوربھگوان پر بھروسہ کرنا چاہئے تھا۔ آخر اس نے کئی سینکڑوں لوگوں کو بھی بچایا ہے دور کی بات کیا کریں ٹیہری کے باشندے ویجندر سنگھ نیگی اتراکھنڈ میں زبردست سیلاب کے اس خوفناک منظر کو شاید اس زندگی میں نہ بھولیں۔ اس نے کیدارناتھ مندر کی گھنٹی سے 9 گھنٹے تک لٹک کر اور اپنی گردن تک گہری پانی میں تیرتی لاشوں پر کھڑے ہوکر جیسے تیسے اپنی جان بچائی۔ 36 سالہ نیگی کے رشتے دار اور دہلی کے ٹورزم آپریٹر گنگا سنگھ بھنڈاری نے کہا کے سیلاب کے دوران وہ صبح 7 بجے سے شام4 بجے تک مندر کی گھنٹی سے لٹکا رہا۔ نیگی مندر کے پاس بنے تین منزلہ ہوٹل کی چھت سے پانی میں کودا اور اس کے بعد مندر میں پناہ لے لی۔ ایک اخبار میں مندر کے بڑے پجاری واگیش لنک کی آب بیتی شائع ہوئی ہے۔ کبھی شیو کی جٹائوں میں سما جانے والی گنگا جب اپنے رودر روپ میں آنے لگی تو لگا کے وہ ایک بار شیو سمیت پوری کائنات کو نگلنے کے لئے مچل رہی ہو لیکن ان کے اس طوفانی چہرے کے بعد بھی (شیو) کیدار بابا کی مہیما میں نئی کڑیاں جڑ گئی ہیں۔ بھاری تباہی کے درمیان کیدارناتھ کے مندرکے حیرت انگیز طور پر بچ جانے کی بات ہو یا پھرتباہ کن حالات میں ارتھ پوجا کا باقاعدہ جاری رہنا۔ مندر کے چیف راول (پجاری) جنہیں ہموت کیدار بھی کہا جاتا ہے، انہوں نے اس آفت کی گھڑی میں پوجا کی اور مسلسل جو خلاصہ کیا ہے اس سے شیو کے تئیں بھگتی کا جذبہ اور بڑھ جاتا ہے۔آفت کی اس گھڑی میں شیو بھگت کے من میں اٹھ رہے سوالوں کا جواب یہی ہے کے گیارویں جوترلنک کیدارناتھ میں آئی بھاری قیامت کے بعد بھی پوجا نہیں رکی۔آفت کے تین دن جب16 جون کو سیلاب کا پانی مندر میں گھسا تو اس سے پہلے بڑے پجاری واگیش لنک پوجا کرچکے تھے۔ وہاں قدرتی مار پہلی بار16 جون کی شام کو8 بجے آئی۔ اس وقت تک پوجا ہوچکی تھی۔ رات کو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوگیا تھا۔ اس کے بعد 17 جون کو صبح 4 بجے پوجا ہوچکی تھی پھر قریب پونے آٹھ بجے جب سیلاب کا پانی مندر میں داخل ہوا تو پجاری واگیش لنک گربھ گرہ میں پانی میں پھنس گئے۔ اس کے بعد پانی چڑھتے چڑھتے ان کے گلے تک آگیا۔ انہوں نے مورتی کوداہنے ہاتھ پر اٹھا لیا اور اس کے بعد وہ ڈوب جاتے کے اس سے پہلے ہی گربھ گرہ کا مغربی دروازہ ٹوٹ گیا اور پانی باہر کی طرف نکل گیا۔ اس کے بعد بڑے پجاری کو لگا کے جنوبی دروازے کی دیوار ٹوٹ سکتی ہے اور وہ وہاں دب سکتے ہیں اس لئے وہاں سے ہٹ کر گربھ گرہ کے ستون پر چڑھ گئے۔ ان کے ہاتھ میں وگرہ کی مورتی تھی۔ اسی صورت میں وہ قریب پانچ گھنٹے تک رہے۔ اس دوران انہوں نے مورتی نہیں چھوڑی ۔ اس کے بعد وہاںبچے کچھ لوگوں نے مندر کے گربھ گرہ میں مورتی کو سنبھالے کو پجاری کو نکالا۔ گوروچڑہٹی میں ہی 18 جون کو پوجا کی گئی اس کے بعد اگلے دن وگرہ مورتی کو گپت کاشی کے وشواناتھ مندر میں لایا گیا جہاں 23 جون تک باقاعدہ پوجا ارچنا ہوتی رہی۔ 24 جون کے بعد اکھی مٹھ کے اکیشور مندر میں بابا کیدارکی پوجا شروع ہوگئی جو تب تک چلے گی جب تک بابا کیدارناتھ کا شدھی کرن نہیںہوجاتا۔ اس بارے میں انکشاف دکھی دل سے کیدارناتھ مندر کے بڑے راول شری ویراگے سنگھ ، سنادھیشور بھیم، شنکر لنگ شیو آچاریہ و مہا سوامی جیٹھ ہموت کیدار نے کیا ہے۔ اوم نمہ شیوائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟