کہیں کانگریس کو ہی نہ بہا لے جائے اتراکھنڈ کا سیلاب

اتراکھنڈ میں قدرت کے قہر کے بعد شروع ہوئے راحت رسانی کے کام میں اب سیاست شامل ہوگئی ہے۔ ابتدائی بدانتظامی کے الزامات سے لڑ رہی مرکز میں اتراکھنڈ سرکار نے اب دوسری ریاستوں سے براہ راست راحت اور بچاؤ کے کام میں لگنے پر روک لگادی ہے۔ حکومت نے یہ صاف کردیا ہے کوئی بھی راحت یا بچاؤ کا کام اب اتراکھنڈ سرکار کی نگرانی میں ہی ہوگا۔ مرکز اور اتراکھنڈ سرکار کے تازہ فیصلے کو سیدھے طور پر نریندر مودی نے اتراکھنڈ میں پھنسے گجراتیوں کو واپس لانے کے لئے ریاست کی جانب سے ہیلی کاپٹرا ور جہازوں کے انتظام کا سہرہ لینے کی کوشش کی شکل میں کانگریس دیکھ رہی ہے۔ ظاہر ہے راحت رسانی کے کام میں بدانتظامی کے الزامات جھیل رہی کانگریس کی مرکزی و ریاستی سرکار کو یہ قطعی پسند نہیں آیا۔ یہ ہی نہیں نریندر مودی کے اتراکھنڈ دورے سے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کی غیر حاضری پر بھی کانگریس میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ راہل گاندھی اتراکھنڈ میں ہوئی تباہی کے9 دن بعد دکھائی پڑے۔ جب گوچر دورے پر گئے تو شام ہونے پر انہیں وہاں رکنا ہی پڑا۔ بیرونی ملک سے لوٹتے ہی راہل گاندھی نے نہ صرف اتراکھنڈ جانے کا پروگرام بنایا بلکہ کانگریس صدر سونیا گاندھی کے ساتھ ریاست کے متاثرین کے لئے راحت سامان سے لدی گاڑیوں کو بھی ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔ اس معاملے میں ڈیمیج کنٹرول کے لئے پارٹی نے ریاست میں چلائی جارہی راحت رسانی کا ذمہ بھی راہل کو سونپ دیا ہے۔ نریندر مودی کی دیکھا دیکھی اتراکھنڈ کی تباہی کا معائنہ کرنے نکلے راہل گاندھی کا یہ داؤ بھی الٹا پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان کی اس بات کے لئے سخت نکتہ چینی بھی کی جارہی ہے۔ 9 دن تک بیرونی ملک میں رہنے کے بعد انہیں اتراکھنڈ کے متاثرین کا درد کیوں یاد آیا۔ جب انتظامیہ کسی بھی وی آئی پی کے دورے کے لئے سختی سے منع کرچکا ہے۔ کانگریس نریندر مودی پر اسی دلیل کو بنیاد بنا کر حملہ بول رہی تھی کے وہ تو راحت رسانی اور لاشوں پرسیاست کررہے ہیں لیکن اب ٹریجڈی کے 9 دن بعد خود اسی کے نائب صدر نے بھی مودی کے نقش قدم پر چل کر خود کو بیک فٹ پر لادیا ہے۔ اتراکھنڈ کا بڑا حصہ قدرت کی مار سے اجڑ گیا ہے۔ وہ کچھ عرصے بعد بھلے ہی بس جائے لیکن اس دوران ریاستی سرکار کی بد انتظامی کا خمیازہ کانگریس کو پورے دیش میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ پورے دیش سے آئے سیلانیوں اور شردھالوؤں کو تلخ تجربہ صرف اترا کھنڈ کی حد تک نہیں رکنے والا ہے۔ اتراکھنڈ میں قدرت کے قہر سے بچ نکلنے والے ہر شخص فوج یا آئی ٹی بی یا ایئر فورس کے جانبازوں کا گنگان کررہا ہے۔ ریاستی سرکار یا مقامی انتظامیہ نام کی کوئی چیز کسی کے لئے سہارے کا سبب نہیں بنی۔ ریاستی انتظامیہ کی نا اہلیت اور لچرتا پر سیلانیوں سے لیکر مقامی لوگوں کی ناراضگی بھی بار بار پریرشان کررہی ہے اور یہ سندیش جارہا ہے کہ راحت کے کاموں میں ابتدائی دور میں تمام جانیں چلی گئیں۔ اتراکھنڈ آنے والوں میں ساؤتھ انڈیا سے لیکر پورب، پچھم اور نارتھ کے سبھی علاقوں کے لوگ آئے ہیں۔ سبھی ریاستوں میں اتراکھنڈ حکومت و انتظامیہ کی کوتاہی کا پیغام جارہا ہے۔ دیو بھومی پر احترام کے ساتھ انتم سنسکار نہ ہوپانے کا ہندو سماج میں درد صرف کنبے تک محدود نہیں رہے گا۔ پہلے جو زندہ بچے ہوئے ہیں ان کو ان علاقوں سے ہٹایا جارہا ہے۔ ایسے میں لاشوں کی درگت کا جذباتی اشو بھی پورے دیش کے لوگوں کو بے چین کرسکتا ہے۔ جیسا کے میں نے کہا کہ کہیں کانگریس کو ہی نہ بہا لے جائے اتراکھنڈ کا سیلاب؟
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟