دھونی کی نوجوان بریگیڈ نے تو جھنڈے گاڑھ دئے ہیں


ٹیم انڈیا کے کپتان مہندر سنگھ دھونی کا کامیابیوں سے ناطہ ہمیشہ ہی گہرا رہا ہے اور اب برنگھم میں منعقدہ آئی سی سی چمپئن ٹرافی جیتنے کے بعد ان کے کارناموں میں ایک اور ٹرافی جڑ گئی ہے۔ بھارت اس کامیابی کے ساتھ مسلسل ونڈے ،ورلڈ کپ اور چمپئن ٹرافی جیتنے والا آسٹریلیا کے بعد دوسرا ملک بن گیا ہے۔ بھارت نے 2011ء میں ورلڈ کپ پر قبضہ جمایا تھا۔ برنگھم میں ٹیم انڈیا نے جس طرح کے کھیل کا مظاہرہ کیا اور فائنل میں انگلینڈ کی ٹیم کو ہرا کر کپ پر قبضہ کیا، اس سے دیش کے کرکٹ شائقین کا حوصلہ بڑھنا فطری ہی ہے۔ دراصل آئی پی ایل کے چھٹے ایڈیشن میں اسپاٹ فکسنگ سے اٹھے تنازعے کے سبب کرکٹ کے امیج کو گہرہ دھکا لگا ہے۔ اس دورہ لوگوں میں کرکٹ سے جو دلچسپی تھی وہ کم ہونے لگی تھی لیکن انگلینڈ میں اس شاندار کامیابی نے وہ تصور ختم کرکے نیا حوصلہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایسا نہیں کے بھارت پہلی بار ورلڈ چمپئن بنا۔ آج سے ٹھیک30 سال پہلے انگلینڈ میں ہی ورلڈ کپ چمپئن بنا تھا۔ کپتان کپل دیو کی رہنمائی میں اس وقت کی دھماکیدار ٹیم نے کرکٹ کے مکا کہے جانے والے لارڈس میدان پر مضبوط حریف ویسٹ انڈیز کو ہرا کر پہلی بار ورلڈ کپ اپنے نام کیا تھا لیکن 30 سال میں ہندوستانی کرکٹ میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ مہندر سنگھ دھونی کے سبھی قائل ہوگئے ہیں۔ نکتہ چینی کرنے والوں کو کرارا جواب دیا ہے۔ دھونی نے کہا کہ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اب وہ کریں تو کیا کریں؟ صرف چھ سال میں آئی سی سی کے تین ٹورنامنٹ جیتنا کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے۔ دھونی کے مینجمنٹ اور صلاحیت کا تو اب بزنس اسکول بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ دھونی میں اور کئی خوبیاں ہوں گی لیکن تین اہم باتیں ہیں ۔ یہ ہیں تعاون دینا، خود اعتمادی دکھانا اور ہر صورت میں تحمل برتنا۔ جب انگلینڈ کے مارگن اور گوگرا بالوں کو پیٹنے میں جٹے تھے تو دھونی بغیر ہڑبڑائے آگے کی حکمت عملی بنا رہے تھے۔ جب دھونی نے ایشانت شرما کو گیند تھمائی تو میں چونک گیا اور میرے دل میں آیا کے اب میچ گیا۔ لیکن دھونی نے پٹ رہے ایشانت سے ان کا آخری اوور کرایا تو میدان کے باہر بھی انہیں سب کوس رہے تھے مگر اسی اوور میں انہیں دو وکٹیں ملیں اور میچ کا پاسہ پلٹ گیا۔ ان دونوں گیندوں نے انگلینڈ کو ہراکر بھارت کو چمپئن بننے میں مدد کی۔ دھونی اپنا کنٹرول نہیں بگڑنے دیتے۔ جیت کے بعد دھونی نے کہا وہ کوئی ریکارڈ بنانے میدان پر نہیں اترتے ان کے لئے ٹیم کی جیت کا سلسلہ ضروری ہے۔ دھونی کی ینگ بریگیڈ نے کمال کردکھایا ہے۔ پورے ٹورنامنٹ کے دوران کیا آپ کو ایک بار بھی سچن تندولکر، ویریندر سہواگ، یوراج، گوتم گمبھیر، ظہیر خان اور بھجی کی کمی کھلی؟ انگلینڈ میں کھیلے گئے 7 میں سے7 میچ جیت کر26 سال کی اوسطاً عمر والی نوجوان بریگیڈ نے اپنا دم خم ثابت کردکھایا۔ شیکھردھون ٹیم انڈیا کی سب سے نئی سنسنی بن چکے ہیں۔ مونچھوں کو تاؤ دینے والا ان کا دھاکڑ انداز نوجوانوں میں فیشن بن گیا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر سہواگ، گمبھیر اور یوراج کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ آئی پی ایل کے درمیان دھونی نے روندر جڈیجہ کو سر جڈیجہ کہا تھا۔ جڈیجہ نے بھی اپنے کھیل سے صحیح معنوں میں خود کو سر ثابت کردیا۔ طویل عرصے سے چلی آرہی آل راؤنڈ کی کمی پوری کردی ہے۔ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ 12 وکٹ لے کر گولڈن بال کے حقدار بھی بنے۔ دھونی کی ٹیم کے جذبے کی داد دینی پڑے گی۔ انہوں نے دونوں آزمائشی میچوں میں سنچری بنانے والے دنیش کارتک کو ٹیم میں جگہ دینے کے لئے مرلی وجے کو باہر بٹھا دیا۔ درمیانی بلے باز روہت شرما سے اوپنگ کرانے کا داؤ چلا ، پھر اشون سے سلپ میں فیلڈنگ کروائی۔ دیتھ اووروں میں اشون اور جڈیجہ سے بالنگ کروائی۔ دھونی کے دھرندروں نے اتراکھنڈ کی قدرتی آفات سے دکھی دیش واسیوں کو خوش ہونے کا ایک موقعہ فراہم کرایا۔ اب اس نوجوان بریگیڈ پر ہندوستانی کرکٹ کا مستقبل ٹکا ہوا ہے۔ انہیں ابھی بین الاقوامی کرکٹ دنیا میں کافی امتحان دینے پڑیں گے لیکن کامیابی کئی بار سرچڑھ کر بولنے لگتی ہے کبھی کبھی نوجوانوں کی سمت بھٹک جاتی ہے۔ آئی پی ایل 6 میں ہم نے دیکھا۔ اس لئے ان نوجوانوں کو ڈسپلن میں رہتے ہوئے آگے بڑھتے جانا ہے اور دیش کے وقار کو نئی اونچائیاں دلانا ہیں۔ مہندر سنگھ دھونی اور ان کی نوجوان ٹیم کو دیش واسیوں کا سلام۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟