اوراب کرکٹ کی آڑ میں فدائی حملہ

تین سال بعد ایک بار پھر کشمیر آتنک وادیوں کے نشانے پر آگیا۔ بدھوار کو گھٹتے ڈر اور سکیورٹی فورس بڑھتے دباؤ سے مایوس سری نگر کے باہری علاقے میں بیمینہ میں واقع پولیس پبلک اسکول میدان میں کرکٹ کھیلنے کے بہانے داخل ہوئے آتنکیوں نے حملہ کردیا۔ کرکٹ کٹ میں چھپا کر لائے ہتھیاروں سے کئے گئے حملے میں سی آر پی ایف کے پانچ جوان مارے گئے جبکہ اتنے ہی جوان اور مقامی شہری زخمی ہوگئے۔ زخمی 10 جوانوں کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔ سکیورٹی فورس نے جوابی کارروائی میں دونوں حملہ آوروں کو مار گرایا۔ واقعہ کی ذمہ داری حزب المجاہدین نے لی ہے۔ جس علاقے میں حملہ ہوا وزیر اعلی عمر عبداللہ وہاں سے مسلح فورسز ،اسپیشل پاور ایکٹ ہٹانے کی سفارش کرچکے ہیں۔ واقعے کے بعد بھی عمر عبداللہ کے والد ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے کہا کہ قانون ہٹانا ہی ہوگا۔ اس کی ضرورت صرف سرحدی علاقوں میں ہے جس جگہ حملہ ہوا وہاں سرکاری دفتر اور اسکول ہیں۔ حریت کے بند کی اپیل کے سبب لوگوں کی موجودگی کم تھی۔ کھلاڑیوں کے بھیس میں چار آتنکی کرکٹ کٹ میں اے ۔کے 47 اور دستی بم لیکر گراؤنڈ میں داخل ہوئے۔ لوگوں نے کوئی چیکنگ بھی نہیں کی۔اگر ان کی جانچ ہوتی تو حملہ ٹالا جاسکتا تھا۔ ساتھ ہی سی آر پی ایف کے جوان ہتھیاروں کے بجائے ڈنڈوں کے ساتھ تعینات تھے۔ کچھ دن پہلے عمر عبداللہ حکومت نے حکم جاری کر پولیس اور سی آر پی ایف کو خطرناک ہتھیار استعمال نہ کرنے کو کہا تھا۔ سی آر پی ایف پر حملہ اس کی علامت ہے کے ریاست میں آتنک واد کا خطرہ پہلے کی طرح برقرار ہے۔ کم سے کم وردات کے بعد تو کشمیر میں موثر مسلح فورس مخصوص اختیار قانون کو واپس لینے کی مہم پر روک لگ جانی چاہئے۔ ویسے بھی یہ صاف ہے کہ یہ مہم آپسی سیاسی اسباب سے چھیڑی گئی ہے۔موجودہ حالات میں نہ تو قانون واپس لیا جاسکتا اور نہ ہی کشمیر میں تعینات سکیورٹی فورس میں کٹوتی ہوسکتی ہے۔ غور طلب ہے کہ پارلیمنٹ میں حملے کے معاملے میں مجرم افضل گورو کو 9 فروری کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔اس کے بعد21 فروری کو حیدر آباد میں بم دھماکہ ہوا،اب سرینگر میں فدائین حملہ ہوا۔ اس درمیان پھانسی کی مخالفت میں اسلام آباد میں علیحدگی پسند لیڈر یٰسین ملک کا انشن اور اس موقعے پر آتنکی سرغنہ حافظ سعید کا وہاں آنا اس پورے معاملے کی پیچیدگی کو خطرناک انجام کی طرف لے گئے۔ اس حملے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آتنک وادی تنظیم کشمیر میں موجودہ حالات کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے۔ یہ بدقسمتی اور تشویشناک پہلو ہے جیسے جیسے اسمبلی انتخابات قریب آتے جارہے ہیں ویسے ویسے کشمیر میں حکمراں فریق اور اپوزیشن کشمیر کے مفادات کو نظرانداز کرتے جارہے ہیں۔ ہتھیاروں سے مسلح آتنک وادیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وزیراعلی عمر عبداللہ کا یہ حکم کے پولیس اور سکیورٹی فورس پبلک مقامات پر ہتھیار نہ لے جائیں ہماری سمجھ سے تو باہر ہے۔ آپ ایک پراکسی وارکا ڈنڈو ں سے کیسے جواب دے سکتے ہیں۔ ہمارے بہادر جوان یوں بلی کا بکرا بنائے جاسکتے ہیں۔
اگر ہمیں کشمیر میں یہ دیش کے دیگر حصوں میںآتنک واد کا مقابلہ کرنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ ہمارے جوانوں کے پاس آتنکیوں سے لوہا لینے کے لئے صحیح اوزار ہوں۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے آخر کشمیر کے لیڈر اور یوپی اے سرکار یہ کیوں نہیں دیکھ پا رہی ہے کہ کشمیر میں آگ کون لگا رہا ہے کیونکہ کشمیری سیاستداں جانے انجانے میں اس کھیل میں شامل ہیں اس لئے وہ علیحدگی پسندوں اور نامعلوم پاک آتنکیوں کے ساتھ ساتھ ایک پتھر بازوں کی بھی جماعت کھڑی ہوگئی ہے۔ کشمیر صرف اس لئے پریشانی سے دوچار نہیں ہے کیونکہ پاکستان اور اس کے حمایتی آتنکی تنظیمیں سرگرم ہیں بلکہ اس لئے بھی ہے کشمیر کے سیاستداں اپنی صحیح ذمہ داری نبھانے سے انکا کررہے ہیں۔ ان حالات میں بھارت پاک رشتے کیسے بہتر ہوسکتے ہیں؟ یہ ایسے ہی چلے گا ہمارے بہادر جوان مرتے رہیں گے۔ ہمارے حکمرانوں میں نہ تو اتنا دم ہے اور نہ ہی قوت ارادی ہے کہ پاکستان کو منہ توڑ جواب دے سکیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟