جمنا صرف ایک ندی نہیںلاکھوں لوگوں کی عقیدت کا مرکز ہے

دیش میں عوام سے وابستہ مسئلوں پر مہم اور مظاہرے اکثر ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں جب تک نظر انداز کردیا جاتا ہے جب تک ان کی آواز دہلی میں سنائی نہ پڑے۔ جمنا مکتی پدیاترا پر شروع میں توجہ نہ دینے کی ہی وجہ ہے کہ آج لاکھوں لوگ جمنا کی صفائی کے اشو کو لے کر دہلی آئے ہوئے ہیں ان میں سے کچھ ساؤھو سنت ہے کچھ کسان اور کچھ سمجھ دار و سماجی کارکن بھی ہے جنہیں ایک ندی کی عقیدت یا کھینچ لائی ہے ان مظاہرین کو بے شک کچھ مخالف سیاست دانوں کی بھی حمایت ملی ہو لیکن اس سے تحریک کی اہمیت ذرا بھی کم نہیں ہوتی۔ دہلی میں جمنا کی صفائی کے لئے 1995 سے 1912تک 2072 کروڑ روپے سرکار کی طرف سے خرچ کئے جاچکے ہیں۔ اب تک تقریباً 12ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود جمنا ندی ایک نالہ بنی ہوئی ہے۔ 4 دسمبر 2012کو سپریم کورٹ نے کہا یہ مایوس کن ہے جسٹس سوتنتر کمار اور جسٹس مدن وی لوکور کی بنچ نے ریمارکس دیئے کہ دہلی میں جمناندی میں پانی نہیں گندگی بہتی ہے برسوں سے کہاجارہا ہے کہ ہریانہ ہتھنی کند بہراچ سے نجات دلانے اور دہلی کی گندگی جمنا میں نہ ڈالنے سے تصویر بدل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ جمنا پردلی کی پیاس مٹانے کا بھی کم وبیش کی ذمہ داری ہے اس لئے اس کی بھلائی کے لئے دہلی سرکار کی ذمہ داری بڑھی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ دہلی اور ہریانہ کی حکومتیں پچھلے کئی برسوں سے ایک دوسرے پر جمنا کو آلودہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں جب کہ نہ صرف دونوں مقامات پر کانگریس کی حکومتیں ہے بلکہ مرکز میں بھی کانگریس کی قیادت والی یوپی اے سرکار اقتدار میں ہے۔ جمنا نہ صرف ایک ندی نہیں ہے بلکہ یہ لاکھوں لوگوں کی عقیدت کامرکز بھی ہے گنگوتری سے لے کر الہ آباد میں سنگم تک اپنے 1376کلو میٹر کے سفر میں جمنا کی معاون ندیوں کی وجہ سے اس ندی میں تھوڑا پانی دیکھنے مل جاتا ہے۔ اس سے پہلے دہلی سے چمبل کے درمیان قریب 700کلو میٹر علاقہ میں جمنا محض ایک نالہ بن کر رہ گئی ہے جمنا کو سب سے زیادہ آلودہ دیش کی راجدھانی دہلی نے کیاہے۔ دہلی میں ہردن ہزاروں لیڈر سیویج کا پانی جمنامیں گرتا ہے انڈسٹریل کچرا اوربغیر ٹریٹ کے کارخانوں سے نکلا گندا پانی اور دیگر گندگی سیدھی نی میں بہا دی جاتی ہے۔ گنگا کے کنارے متھرا برندا ون جیسے دھارمک مقامات پڑتے ہیں یہاں آکر آستھا کی علامت مانی جانیوالی گندگی سے بھری جمنا کے پانی میں لوگ اشنان کرتے ہیں حالات اتنے خراب ہے کہ آکسیجن کی ندی میں کمی ہونے سے اس میں رہنے والے جانوروں کی موت ہورہی ہے اس کے لئے سرکار کو باقاعدہ ایک اسکیم بنانی ہوگی یمنا کی بھلائی کے لئے متعلقہ حکومتوں کو ٹھوس راستہ نکالناپڑے گا لیکن جمنا اس کے پرانے چہرے میں لوٹانے کے لئے جنتا کو بھی حرکت میں اور بیدار ہوناپڑے گا۔ جو ہر چیز کو ندیوں میں ڈال کر اسے گندا کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ گنگا کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے اس کو لے کر وزیراعظم کی سربراہی میں ایک اتھارٹی ہونے کے بعد بھی حالات جوں کہ توں ہے بہتر ہوگا بروقت حکومت جاگیں اور خاص کر ندیوں کی پاکیزگی کے سوال پر لوگوں میں بیداری لائے اور استعمال کرنے والے پانی کی بچت اور ماحولیات کے تمام مسئلوں کو طویل عرصوں تک ٹالا نہیں جاسکتا کیونکہ اس کے اور خطرے صاف دکھائی دینے لگے ہیں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟