دہلی میں فرضی ووٹروں کی بڑھتی تعداد کا کیا کریں گے؟

جیسے جیسے اسمبلی انتخابات قریب آتے جارہے ہیں فرضی ووٹروں کا کھیل شروع ہوچکا ہے۔ دہلی میں15 لاکھ سے زیادہ فرضی ووٹر ہونے کا اندازہ ہے جن کی چھٹنی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ اگلے ماہ 15 اپریل تک چناؤ کمیشن کے سامنے پوزیشن آجائے گی۔ اس کے لئے پچھلے 15 برسوں کا ریکارڈ دیکھا جارہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں فرضی ووٹر یا شناختی کارڈ ملیں گے انہیں بنانے والے حکام کے خلاف چناؤ کمیشن کے ذریعے طے ڈسپلن کے تحت کارروائی ہوگی۔ دہلی کے چیف الیکشن افسر وجے کمار دیو نے بتایا کہ فرضی ووٹروں کی پہچان کی مہم میں ایک شخص کے کئی ووٹ ہونے کے معاملے سامنے آئے ہیں۔ دیو کا کہنا ہے محکمے کی جانب سے بھی غلطی یہ ہوئی ہے کہ ایک ہی شخص کو ایک ہی ووٹر شناختی کارڈ جاری کرنا چاہئے تھا لیکن اس شخص نے جتنی بار بھی درخواست دی اسے ہر بار نیا شناختی کارڈ دے دیا گیا۔ چاہے اس نے اپنے شناختی کارڈ میں گھر کا پتہ ہی کیوں نہ بدلوایا ہو۔ فرضی شناختی کارڈ یا ووٹ بنوانے میں سب سے بڑا ہاتھ ہمارے نیتاؤں کا ہے۔ نیتا افسروں پر دباؤ ڈال کر اپنے علاقوں میں ووٹروں کی بھاری فوج کھڑی کرا لیتے ہیں تاکہ چناؤ کے وقت یہ ان کے کام آسکے۔ جانچ میں پایا گیا ہے تقریباً ایک درجن ممبران اسمبلی کا پتہ لگا ہے جہاں ملی بھگت سے فرضی ووٹر بنائے گئے ہیں۔ چیف الیکشن آفس کی رپورٹ میں یہ جانکاری آچکی ہے کہ راجدھانی کی 70 اسمبلی سیٹوں میں قریب14 لاکھ فرضی ووٹر یعنی (11 فیصدی) ووٹر ہیں۔ جانچ میں ان لاکھوں ووٹروں کو منتقل، یا مردہ،یا ڈپلکیٹ بتایا گیا ہے۔ ان کا خاتمہ کرنے کے لئے چناؤ دفتر عزم کئے ہوئے ہے۔اس کا نشانہ ہے 15 اپریل تک زیادہ تر فرضی ووٹروں کو چیک کر ان کا نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیا جائے۔ راجدھانی میں موٹے طور پر ایک اسمبلی حلقے میں ایک سے سوا لاکھ ووٹر ہیں۔حیرانی تو اس بات کی ہے کہ جانچ کے دوران کچھ اسمبلی حلقوں میں15 ہزار سے59 ہزار ووٹر فرضی ہیں۔ ایسے اسمبلی حلقوں میں دہلی سرکار کے وزیر اور کچھ سینئر ممبر اسمبلی چناؤ جیت کر آئے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں ان علاقوں میں باہری دہلی میں 4 ، جمنا پار میں3، مغربی دہلی میں3 ، ساؤتھ دہلی میں2 جن اسمبلیوں میں بھاری تعداد میں فرضی ووٹر پائے گئے ان میں کراول نگر، مٹیامحل، اتم نگر، آر کے پورم، مالویہ نگر، بلیماران، منگولپوری، گاندھی نگر، لکشمی نگر، مہرولی وغیرہ اسمبلی قابل ذکر ہیں۔ پچھلے اسمبلی چناؤ میں کئی سیٹوں پر جیت کا مارجن پانچ ہزار ووٹ سے بھی کم رہا ایسے میں اسمبلی چناؤ میں ووٹروں کی تعداد بھاری الٹ پھیر کرسکتی ہے۔چناؤ کمیشن کی ہم تعریف کرتے ہیں کہ یہ کام اتنا آسان شاید نہ ہو۔ کچھ لیڈروں کا تو سیاسی مستقبل ہی ان فرضی ووٹروں پر ٹکا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟