اٹلی سے آر پار کرنا ہوگا داؤ پر ہے بھارت کی عالمی ساکھ

قتل کے ملزم اپنے دونوں فوجیوں کو بھارت واپس بھیجنے سے انکار کرکے اٹلی حکومت نے صاف طور پر حکومت ہند اور سپریم کورٹ کی توہین کی ہے۔ اٹلی نے حکومت سے دھوکہ کیا ہے۔ ہندوستانی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق یا تو وہ 22 مارچ کو طے شدہ تاریخ تک دونوں مرین کو بھارت کے سپرد کردے یا پھر ڈپلومیسی سے لیکر تجارت اور سرمایہ کاری تک بھارت اپنے راستے الگ اپنائے۔اٹلی کے فیصلے سے بھارت کی عزت داؤ پر لگی ہے، اس بار آر یا پار۔ بیچ کا راستہ تلاش کرنا ہے تو اٹلی والے تلاش کریں۔ بھارت میں اس کا کوئی رول نہیں ہے۔اٹلی حکومت نے پہلے تو یہ دلیل دی کہ اس واردات کو لیکر کسی ہندوستانی عدالت میں مقدمہ چلایا نہیں جاسکتا کیونکہ موقعہ واردات بھارت کی سمندری سرحد میں نہیں ہوئی تھی۔پچھلے سال ایک اطالوی جہاز پر تعینات دو اطالوی مرین گارڈوں نے آبی سرحد کے اندر مچھلی پکڑ رہے کیرل کے دو مچھیروں کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ وقت پر اطلاع دئے جانے سے ہندوستانی بحریہ نے اطالوی جہاز کی گھیرا بندی کرلی ونہ قاتل صاف نکل جاتے۔ مغربی ملک اپنے مشترکہ دباؤ سے کسی کو ان کے کندھوں پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتے۔ عدالت نے انہیں پہلے کرسمس کے موقعے پر گھر جانے کا موقعہ دیا پھر پچھلی22 فروری کو وہ اپنے دیش ووٹ ڈالنے کے بہانے ایک مہینے کے لئے چلے گئے لیکن اب اطالوی حکومت کہہ رہی ہے کہ ان کے خلاف جو بھی مقدمہ چلایا جائے ہندوستانی عدالتوں میں نہیں بلکہ بین الاقوامی عدالت میں چلایا جائے۔ان ملزمان کی واپسی کی گارنٹی ہندوستان میں قائم اطالوی سفارتخانے نے لی تھی۔ ہندوستانی قانون کے مطابق قصورواروں کو وقت پر عدالت میں حاضر نہ ہونے پر جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ عالمی پروٹو کول کے مطابق سفارکار کو تو گرفتار نہیں کیا جاسکتا لیکن متعلقہ دیش کے ساتھ سفارتی رشتے توڑنے کا متبادل بنا رہتا ہے۔ اگر ہمیں ہیلی کاپٹر خرید گھوٹالے میں اطالوی پولیس کے ذریعے ریکارڈ کی گئی فلم مکینیکا کے حکام کی بات چیت یاد کریں تو یہ بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ ہندوستانی قانون سسٹم اور سیاسی ڈھانچے میں اٹلی کے عام لوگوں کو کتنی سمجھ ہوگی۔ اب اگر اس معاملے میں ہم نے ذرا سی بھی بھول کی تو اس سے ہمارے دیش کے بارے میں وہی نظریہ مضبوط ہوگا۔ ہمارے تجربے تو یہ ہی بتاتے ہیں ترقی یافتہ ممالک میں اپنے شہریوں کو ترقی پذیر ممالک کسی نہ کسی بہانے سے لے جاتے ہیں یا اپنے ملزم شہریوں کو دوسرے ملکوں کو نہیں سونپتے مثلاً پولیس ہتھیار معاملے میں کم ڈیویڈ حوالگی سے ڈینمارک نے انکارکردیا تھا۔ اسی طرح بوفورس معاملے میں اٹلی کے کواتروچی اور بھوپال گیس کانڈ کے کھلنائک وائرن اینڈرسن کو امریکہ نے بھارت کو نہیں سونپا۔ بدقسمتی یہ ہے یہ مغربی ممالک ہی سب سے زیادہ بین الاقوامی اصولوں اور قاعدوں کی بات کرتے ہیں۔ ہندوستانی عدلیہ کی غیر جانبداری کی دنیا بھر میں اچھی ساکھ رہی ہے۔ ملزم فوجیوں کی بابت سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اٹلی حکومت چاہے تو بھارت کے عدلیہ اختیار کو چیلنج کرسکتی ہے، یہ ظاہرکردیا تھا کہ اس پر کسی طرح کا امتیاز برتنے کا شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس فیصلے کو اٹلی کے عین مطابق مانا گیا کیونکہ ہندوستانی سپریم کورٹ نے اس سوال کو کھلا چھوڑدیا کہ جرائم ہندوستانی آبی سرحد میں ہوا تھا یا نہیں۔ کچھ وقت پہلے بھارت اور اٹلی کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا جس کے تحت دوسرے دیش میں سزا یافتہ مجرم کو اپنے دیش میں قید بھگتوائیں گے۔ ان سب کے باوجود اٹلی اگر دادا گری پر اترا ہے تو اسے اسی کے انداز میں جواب دینے کے علاوہ بھارت کے پاس کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اب جو بھی ہوگا اس کی پوری ذمہ داری اٹلی سرکار پر ہوگی۔ آخر سوال ہندوستان کی عالمی ساکھ کا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟