جنسی رشتوں کی عمر 18 سے گھٹاکر16 کرنے کا سوال

مرکزی وزارت داخلہ نے رضامندی سے جنسی تعلق بنانے کی عمر کم کرنے کی تجویز مرکزی کیبنٹ کو منظوری کے لئے بھیجی ہے۔ رضامندی کی عمر18 سال سے گھٹا کر16 سال کرنے کی تجویز پر سماج میں طرح طرح کی رائے سامنے آرہی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے یہ قدم اگر بچوں کو وقت سے پہلے جوان ہوجانے کی تشریح کو ذہن میں رکھ کر اٹھایا گیا ہے تو کیا آنے والے دنوں میں یہ عمر حد اور گھٹاکر 10 سال کے بچوں کو رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنے کا قانونی اختیار دے دیا جائے گا؟ مرکزی حکومت اس بل پر اگر کیبنٹ میں رائے بن جاتی ہے تو اسے22 مارچ سے پہلے پارلیمنٹ میں پاس کرانا چاہتی ہے۔ مگر رضامندی سے جنسی تعلق کی عمر 18 سال سے گھٹا کر 16 سال کرنے کی اس تجویز پر تنازعہ چھڑ گیا ہے۔ دہلی کے وسنت وہار میں گینگ ریپ کے واقعہ کے بعد پچھلے مہینے حکومت کو آبروریزی سے متعلق قانون کو سخت بنانے کے لئے آرڈیننس جاری کیا گیا ہے۔ اس قانون میں ترمیم کے عمل پہلے ہی سے جاری ہے اور پارلیمانی کمیٹی اس کا جائزہ لے رہی تھی۔ کچھ دن پہلے کمیٹی نے بھی اپنی سفارشیں حکومت کو سونپ دیں۔ ان سفارشوں اور آرڈیننس کے تقاضوں کو شامل کرتے ہوئے سرکار کو پارلیمنٹ میں نیا بل پیش کرنا ہے۔ مگر وزارت داخلہ کی دو تجاویز پر تنازعہ ہے ان میں ایک رضامندی سے جنسی رشتوں کی عمر گھٹانے اور دوسری جنسی حملے کی جگہ پھر سے آبرویزی کا لفظ استعمال یقینی کرنا ہے۔ وزارت قانون جنسی رشتوں کی رضامندی کی عمر گھٹانے کو تیار ہے لیکن کچھ وزرا کا خیال ہے کہ اس سے جنسی ذیاتیاں بڑھیں گی اس لئے موجودہ سسٹم کو نہ بدلا جائے جبکہ لوگ عمر کو کم کرنے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رضامندی سے بنے رشتوں کو قانون کی آڑ میں جرائم قرار دیا جاتا ہے جس سے نوجوانوں کو غیر ضروری ذیادتی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ مجرمانہ قانون ترمیم بل کا جو خاکہ کیبنٹ میں سامنے رکھا جانا ہے اس میں جنسی تعلق کی عمر 16 سال کردی گئی ہے۔ یعنی سب سے کم عمر کی لڑکی کے ساتھ کوئی شخص اگر اس کی رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے تو اسے آبروریزی مانا جائے گا۔ یہاں یہ صاف کرنا ضروری ہے کہ رضامندی کی عمر18 سال کرنے کے پیچھے بھی نوجوان طبقے کے خلاف پہلے سے کوئی جواز نہیں تھا۔ حال تک یہ عمر 18 سال ہی تھی اور اسے اوپر لانے کی وجہ بتائی گئی تھی کہ لڑکیوں کو بہلا پھسلاکر انہیں جسم فروشی کی طرف دھکیلنے والے رضامندی کی قانونی عمر کم ہونا کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں کسی 16 سال کی لڑکی کو بھگا کر لانے والے دلال پولیس کی گرفت میں آنے سے بچنے کے لئے قانونی آر میں صاف بچ جاتے ہیں۔ تمام خاتون تنظیمیں بلکہ خود اطفال قانونی کمیشن بھی آواز اٹھاتا رہا ہے کہ رضامندی کی عمر لمبی ہونے کا سیدھا نقصان اپنے خاندان سے بغاوت کرکے آزادی حاصل کرنے والے نوجوان جوڑوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ 9 1سال کا کوئی لڑکا اگر 18 ویں سال میں چل رہی لڑکی کے ساتھ مندر میں جاکر شادی کر لے تو یا تو گھر جاتے ہی کھاپ پنچایت کے موت کا فرمان سنے اور تھانے جائیں تو دروغہ لڑکے پر آبروریزی کا کیس تھوپ دیتے ہیں۔ بھلے ہی لڑکی چلاتی رہے کہ اس نے جنسی رشتہ اپنی مرضی سے یا شادی اپنی مرضی سے کی ہے۔ ایسے میں معصوم لڑکیوں کو دلالوں کے جال سے بچانے کے لئے اینٹی ٹریفکنگ قانون کو کارگر بنانے کی ضرورت ہے لیکن دوسرے موقف پر بھی سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے۔ ہماری رائے میں ایسے معاملوں میں جلد بازی سے بچنا چاہئے اور سماج میں وسیع نتائج کے پیش نظر قانون پر سبھی فریقوں سے بات چیت کے بعد یا اتفاق رائے کے بعد آگے بڑھنا بہتر ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟