حسنی مبارک کو ٹانگ دیا لیکن اب آگے کیا؟


مصر میں سب سے طویل مدت حکومت کرنے والے مصر کے ہیرو رہے محمد حسنی مبارک کو اب باقی زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارنی ہوگی۔ دیش پر ڈکٹیٹری سے حکومت کرنے اور راجدھانی قاہرہ کے ایوان صدر میں 30 سال گزارنے کے بعد مبارک کو اپنی زندگی کا باقی حصہ جنوبی قاہرہ کی خطرناک تورا جیل میں کاٹنا ہوگا۔ اسلامی کٹر پسندوں نے 1981 ء میں صدر انور سعادات کو قتل کردیا تھا جس کے بعد مبارک نے اتھل پتھل کے درمیان عرب ملکوں میں سب سے اہم ملک کے سربراہ کے طور پر باگ ڈور سنبھالی تھی۔ اس اتھل پتھل کے سبب جنگ دہشت گردی اور مذہبی کٹر پسندی نے مغربی ایشیا کو زد میں لے لیا ہے۔ اپنے عہد کے دوران چھ بار حسنی مبارک کے قتل کی کوشش کی گئی اور وہ ہر بار بچ گئے۔ لیکن قاہرہ کی سڑکوں پر جب مظاہرہ ہوا تو انہیں اقتدار گنوانا پڑا۔ عرب انقلاب کے جوار بھاٹا میں مٹ جانے والوں میں مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔ لیبیا کے تاناشاہ معمر قذافی کو جہاں موت نصیب ہوئی وہیں مبارک عرب دنیا کے پہلے معزول صدر ہیں جنہیں عدالت نے سزا سنائی ہے۔ 10 مہینے طویل چلی سماعت کے بعد شہری عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا دی۔ مصر کی عوام اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہے۔ سڑکوں پرفیصلے کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جنتا مبارک کو موت کی سزا سے زیادہ مطمئن ہوتی۔ اشو یہ نہیں کہ حسنی مبارک کو پھانسی کی سزا کیوں نہیں دی گئی بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اب مصر واقعی فوجی تانا شاہی سے آزاد ہوسکے گا۔ جہاں اگلے صدر کا اگلے کچھ دنوں میں چناؤ ہونا ہے۔مبارک نے دیش کو اپنے ڈھنگ سے چلایا۔ وہ عام طور پر مغربی دیشوں خاص کر امریکہ کی لائن پر چلے۔ ان کے عہد میں اسلامی کٹر پسندی پر لگام لگی رہی۔ اب حالت دھماکوں بن گئی ہے۔ مسلم برادر ہڈ جیسی مسلم کٹر پسند تنظیم کا اقتدار میں آنے کا امکان ہے۔اقتدار کی لڑائی ا ب کٹر پسند مسلم برادر ہڈ اور حسنی مبارک کے قربیوں کے درمیان ہے۔ مبارک کے دونوں بیٹوں کو کرپشن کے الزامات سے بری کرنے اور انقلاب کی آواز اٹھانے والوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے سینئر سکیورٹی افسران کو سزا نہ ملنے پر بھی انہیں ہلکے سے نہیں لیا جاسکتا۔ ایک طرف مبارک کے وفادار احمد رفیق چناؤ جیت جانے کی صورت میں تاناشاہی کے دور سے دوبارہ نکلنے کا ڈر ہے تو مسلم برادر ہڈ کے اقتدار سے ہٹنے پر کٹر پسندی کی نئی لہر پیدا ہوسکتی ہے۔ دراصل عرب دنیا میں انقلاب کے بعد بھی ویسی تبدیلی نہیں آرہی ہے جیسا کے توقع کی گئی تھی۔تیونس سے شروع ہوئی بغاوت قاہرہ کے تحریر چوک پر ختم ہوگی اس کی گارنٹی نہیں ہے۔ مشرقی وسطی عدم استحکام کے دور میں شام میں خانہ جنگی کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ جمہوریت کے نام پر تاناشاہوں کو بٹھا دیا گیا ہے لیکن کیا آج تک کسی بھی عرب ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں قائم ہوسکی ہے؟ لیبیا سے لیکر یمن اور مصر تک فوجی ڈکٹیٹروں کو اقتدار پر قابض ہوتے اور کٹر پسندوں کے مبینہ احتجاج کے نام پر امریکہ سے حمایت اور مدد لیکر اپنی تاناشاہی چلاتے دیکھا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟