خوف کے سائے اورقدرتی آفات کے درمیان امرناتھ یاترا


ہر سال کی طرح ایک مرتبہ پھر امرناتھ یاترا دہشت گردی کے نشانے پر ہے۔ہماری سکیورٹی فورس نے اپنی سرحد کے اس پارکے پیغامات سنے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ آتنکی یاترا کو نشانہ بنانے کی تیاری میں ہیں۔ تشویش کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اسامہ بن لادن اور الیبی کی موت کے بعد کشمیر میں دہشت گردی کی سرگرمیاں تیز ہونے کی وارننگ ملی ہے لیکن بابا امرناتھ کے بھکتوں پر ان دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک ماہ میں رجسٹریشن کرانے والوں نے سوا تین لاکھ کا آنکڑا پار کرلیا ہے۔ سکیورٹی ایجنسیاں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں جن 30 سے40 آتنکیوں کے اس طرف گھس آنے کی تصدیق ہوئی ہے ان کا اہم نشانہ امرناتھ یاترا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یاترا میں شامل ہونے والے بھکتوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ حالانکہ آتنکی دھمکیوں کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سال1993ء کی امرناتھ یاترا ان لوگوں کو یاد ہوگی کہ جنہوں نے پہلی بار اس یاترا پر لگی پابندی کے بعد حرکت الانصار کے حملوں کو برداشت کیا تھا تب تین شردھالوؤں کی جانیں گئیں تھیں۔ پہلے حملے کے 10 سال بعد خوفناک حملے میں 11 بھکتوں کی موت ہوئی تھی۔ ان دس سال میں کوئی بھی ایسا برس نہیں گذرا تھا جب آتنکی حملوں اور موتوں سے امرناتھ یاترا سرخیوں میں نہ آئی ہو لیکن اس کے باوجود امرناتھ یاترا آج بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ سکیورٹی فورس یاترا کو ہر حال میں محفوظ بنانے میں لگی ہے۔ ریاستی حکومت اور انتظامیہ کے لئے یہ کسی چنوتی سے کم اس لئے نہیں ہے کیونکہ سال 1993ء کے بعد کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ شاید ہی کوئی ایسا برس رہا ہو جب آتنکی حملوں میں شردھالوؤں کی موت نہ ہوئی ہو۔ جو برس بچا وہ قدرتی آفات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اگر ماضی میں آتنکیوں کے ہاتھوں بچ گئے تو قدرت کے ہاتھوں سے نہیں بچ سکے۔ سکیورٹی فورس کے لئے چنوتی پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ پہلے مسافروں کی تعداد بمشکل54 ہزار ہوا کرتی تھی مگر 1993ء میں آتنکی پابندی نے لوگوں کو اس کی طرف مزید راغب ہونے پر مجبور کردیا۔ نتیجہ 1993ء سے سال 2002 ء تک کی یاترا کا اوسط حصہ لینے والوں کی تعداد 2 لاکھ رہی ہے۔جیسے جیسے امرناتھ یاترا پابندی اور آتنکی حملے بڑھتے رہے ہیں یاترا میں شامل ہونے والے بھکتوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اصل میں کئی مذہبی تنظیموں نے بھی اسے ایک چنوتی کی شکل میں لیتے ہوئے ہزاروں لوگوں سے شامل ہونے کی اپیل کی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ سال1996ء میں جب بجرنگ دل کے 50 ہزار کے قریب ممبر امرناتھ یاترا میں حصہ لینے پہنچے تو سارا سسٹم اور انتظام چرمرا گیا اور قدرتی آفات نے بھی یاترا کو گھیر لیا اور 300 کے قریب شردھالو قدرتی آفات کا شکار ہوگئے۔ بابا امرناتھ یاترا کی ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ آتنکی حملوں کے سبب ہی یہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اگرچہ آتنکی حملوں میں مرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں تھی جتنی قدرتی آفات میں لوگ مارے گئے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سارے جھگڑوں کے باوجود اس سال کی امرناتھ یاترا ٹھیک ٹھاک گذرے گی اور محفوظ بھی رہے گی۔ جے بابا امرناتھ، ہر ہر مہا دیو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟