اب تو اس حکومت کے وزیر بھی تیل کے داموں کیخلاف بولنے لگے ہیں


پیٹرول کی قیمتوں کا کھیل جس طرح سے ہورہا ہے اس کا رنگ پورا فلمی ہے۔ کیسے سرکار دام بڑھاتی ہے اور پھر کیسے کم کرتی ہے۔ 1984ء میں راجیش کھنہ کی ایک فلم ’آج کا ایم ایل اے ،رام اوتار‘ آئی تھی۔ اس فلم میں بھی کچھ ایسی ہی کہانی تھی۔ جب ایک کمپنی کے لوگ ایم ایل اے کے پاس پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے پروڈکٹ کے دام دو روپے بڑھانا چاہتے ہیں لیکن ڈر ہے کہ جنتا بھڑک جائے گی۔ تب ایم ایل اے کہتا ہے کے دو روپے نہیں پانچ روپے بڑھاؤ ،جب جنتا ناراض ہوگی تو دو روپے کم کردیتا۔تین میں سے دو روپے تمہارا خسارہ پورا کردیں گے اور بچا ہوا ایک روپیہ ہمارا۔ ٹھیک یہ ہی حال اس سرکار کا ہے۔ عام آدمی کی زبردست ناراضگی اور سیاسی پارٹیوں کے چوطرفہ دباؤ میں بھلے ہی سرکاری تیل کمپنیوں میں پیٹرول کے دام میں دو روپے کی کٹوتی کردی ہو لیکن یہ راحت کافی نہیں ہے۔ پہلے 7.50 روپے فی لیٹر بڑھادد۔ پھر آنسو پوچھنے کے لئے ان میں سے2 روپے گھٹا دو۔ اب تو خود کانگریسی وزیر بھی داموں کو غلط بتا رہے ہیں۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی مخالفت کرنے والے مرکزی وزیر اے کے انٹونی کے ساتھ سنیچر کے روز ایک اور کیبنٹ وزیر کا نام جڑ گیا۔ پرواسی معاملوں کے وزیر ویالارروی نے پیٹرول کے داموں کو نامناسب قراردیتے ہوئے تیل کمپنیوں کے خسارے کے دعوے کو جھوٹا بتایا ۔ انہوں نے وزیر تیل جے پال ریڈی سے کہا مستقبل میں اور کسی اضافے کا فیصلہ لینے سے پہلے اس پر غور کریں۔ ریڈی کو لکھے خط میں تیل کمپنیوں کے ذریعے بھاری خسارہ ہونے کے دعوے پر سوال اٹھایا۔ ریڈی کو ان کے اس دعوے کی تفصیل سے چھان بین کرنے کی بھی صلاح دی۔ اس سے پہلے وزیر دفاع اے کے انٹونی نے قیمتوں میں اضافے کی نکتہ چینی کی تھی۔ روی نے خط میں لکھا ہے کہ تیل کمپنیاں ایک طرف تو خسارے میں چلنے کی بات کرتی ہیں وہیں دوسری طرف سچائی تو یہ ہے کہ تیل کمپنیوں کا خرچ و ان کی تنخواہ بھارت اور دیگر خرچوں والی کمپنیوں میں شامل ہیں۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ تیل کمپنیاں پیسہ برباد کررہی ہیں۔ دراصل حالت یہ ہے کانگریس تنظیم اور ورکروں میں پیٹرول کی بے تحاشہ بڑھتی قیمتوں کو لیکر غصہ ہے۔ ان کے نشانے پر ہیں وزیر پیٹرول جے پال ریڈی۔ کانگریس کا ایک بڑا گروپ کہتا ہے کہ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے سخت مخالف رہے جے پال ریڈی کو کانگریس کے سیاسی مستقبل کی پرواہ نہیں ہے۔ ان کانگریسی لیڈروں کا الزام ہے کہ جے پال ریڈی کا کانگریس سے کوئی لگاؤ نہیں ہے کیونکہ وہ پارٹی چھوڑ کر کانگریس مخالف خیمے کی پتوار تھام کر ہی سیاست میں یہاں تک پہنچے۔ کچھ کانگریسی دبی زبان سے یہ بھی کہتے ہیں کہ جے پال ریڈی ان دنوں زیادہ وقت نائب صدر کے عہدے کے لئے سیاسی لابنگ میں جٹے ہوئے ہیں۔ جے پال کی کوشش ہے کہ ان کی غیر کانگریسی پارٹیوں کے دوست اتفاق رائے بنا کر انہیں نائب صدر کے عہدے تک پہنچادیں۔ ناراض کانگریسیوں کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے پرجے پال اپنی لاچاری بتا کر سارا ٹھیکرا تیل کمپنیوں پر پھوڑ دیتے ہیں لیکن تیل کمپنیوں کے مینجمنٹ اور دیش کی تیل ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بطور وزیر پیٹرول انہوں نے خود کیا کیا؟ کانگریس کے ایک نیتا کا کہنا ہے جب تیل کمپنیوں کے مینجمنٹ میں سینئروں کی تقرریاں وزارت پیٹرول اور وزیر اعظم کے دفتر کے ذریعے کی جاتی ہیں تو کیسے سرکار تیل کمپنیوں کے کام کاج اور فیصلوں سے پلہ جھاڑ سکتی ہے۔ ریڈی یہ کہہ کر کیسے اپنی ذمہ داری سے بچ سکتے ہیں کہ قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ تیل کمپنیوں کا ہے اور وہ اس میں کچھ نہیں کرسکتے؟ ناراض کانگریسی ورکر کہتے ہیں کہ ریڈی کے بیان سے جنتا کا غصہ اور بڑھ جاتا ہے جس کی قیمت کانگریس کو آنے والے چناؤ میں چکانی پڑ سکتی ہے۔ کانگریس لیڈروں اور ورکروں کے اس طبقے کا خیال ہے کہ جے پال ریڈی کو نہ سرکار کی ساکھ کی فکر ہے اور نہ ہی کانگریس کے سیاسی مستقبل کی فکر۔ انہیں تشویش صرف اپنے مفادات کی ہے۔اس لئے جب وہ وزیر شہری ترقی تھے تب کامن ویلتھ کھیلوں کے لئے ہونے والے تعمیراتی کاموں میں اربوں روپے کے گھوٹالوں پر آنکھیں بند کئے بیٹھے رہے اور اب وزیر پیٹرول ہیں تو پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں جنتا کی کمر توڑ رہی ہیں اور کانگریس کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ ایک سینئر کانگریسی لیڈر کا کہنا ہے کہ 1980 میں جب اندرا جی رائے بریلی اور میدھک دو جگہ سے لوک سبھا چناؤ لڑی تھیں ،تب جے پال ریڈی ان کے خلاف چناؤ لڑے تھے۔ اس دوران اگر ان کی تقریریں نکالی جائیں تو جے پال ریڈی کانگریس کے کتنے بھکت ہیں پتہ چل جائے گا۔ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی رہنمائی والی جنتا دل سرکار میں شامل ہوئے انہی جے پال ریڈی نے بوفورس معاملے میں راجیو اور سونیا گاندھی کے خلاف کیا کچھ نہیں بولا۔ کانگریس کو اپنے سچے وفاداروں کو پہچاننا چاہئے اور اپنے سیاسی مستقبل کی فکر کرنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟