ضمانت دینے پر جج کو کروڑوں کی رشوت کا پیچیدہ معاملہ


دیش کیلئے یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ کرپشن سے اب ہماری عدلیہ بھی نہیں بچ سکی۔ بیشک ایک آدھ معاملہ ہی سامنے آیا ہے لیکن یہ اشارہ دیش کی صحت کیلئے اچھا نہیں مانا جاسکتا۔خصوصی سی بی آئی عدالت کے جج ٹی پٹامراماراؤ کو آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے رشوت خوری اورکرپشن کے الزام میں معطل کردیا ہے۔ راؤ نے معدنیات، کھدائی کاروباری جی جناردھن ریڈی کو ضمانت دی تھی۔ سی بی آئی نے ایک بینک لاکر سے قریب1 کروڑ80 لاکھ روپے ملنے کا دعوی کیا ہے۔ جس کی چابیاں ملزم جج راؤ کے بیٹے کے پاس تھیں۔ آندھرا ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سی بی آئی معاملوں کے فرسٹ ایڈیشنل سپیشل جج پٹا مراما راؤ کے خلاف ملی اطلاع پر غور کرنے کے بعد ہائی کورٹ نے مفاد عامہ میں انہیں معطل کردیا ہے۔ اسپیشل جج راؤ نے پچھلے مہینے ہی او ایم سی ناجائز کھدائی معاملے کے ملزم کرناٹک کے سابق وزیر جی جناردھن ریڈی کو ضمانت دی تھی جبکہ اس معاملے کے ایک دوسرے ملزم اور آئی اے ایس افسر وائی شری لکشمی کی ضمانت عرضی خارج کردی تھی۔حالانکہ سی بی آئی کی اپیل پر ہائی کورٹ نے ریڈی کو ضمانت دینے والے حکم کو 5 جون تک منسوخ کردیا تھا۔ رجسٹرار نے کہا کہ جج کے خلاف ملی اطلاع پر غور کرنے کے بعد ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ مفاد عامہ میں انہیں فوراً معطل کرنا ضروری ہے۔ حکم میں کہا گیا ہے اسپیشل جج پٹا مراماراؤ مجوزہ ڈسپلن شکنی کی کارروائی پوری نہ ہونے تک معطل رہیں گے۔ اس درمیان سی بی آئی نے حیدر آباد کے ایک بینک لاکر سے قریب1.80 کروڑ روپے ملنے کا دعوی کیا ہے۔ ایجنسی کو شبہ ہے کہ پیسہ ریڈی کا تھا اور ناجائز رشوت کے طور پر دیا گیا تھا۔ معاملے کو پھر چیف جسٹس کے سامنے رکھا گیا جنہوں نے راؤ کو معطل کرنے کا حکم دیا۔ ٹی ڈی پی چیف ایم چندرا نائیڈو اور کانگریس ایم پی چرن جیو سمیت پارٹی کے دیگر لیڈروں نے جج کو اثر میں لانے کی کوششوں کی خبروں پر حیرت ظاہر کی اور اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں کو روکنے کیلئے مناسب کارروائی کی مانگ کی تھی۔ 
مرکزی حکومت نے ہائی کورٹ میں ججوں کے برتاؤ کو لگام دینے والے جج پیمانہ و جواب دہی بل 2010 میں ترمیم کے اشارے دئے ہیں۔ بل میں ججوں کے خلاف شکایت کرنے اور انہیں ہلکی سزا دینے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ بل 29 مارچ کو لوک سبھا میں پاس ہوگیا جس کو راجیہ سبھا میں پیش کیا جانا ہے۔ سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے بار ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ایک پروگرام میں بل پر سخت ناراضگی ظاہر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ جوابدہی سے خود کو بے عزت اور کمتر محسوس کررہے ہیں۔ سرکار کا اس طرح سے ججوں کے برتاؤ کو لگام دینا مناسب نہیں ہے۔ موجودہ نظام یعنی عدلیہ جانچ قانون 1968 میں کرپٹ ججوں کو لائی گئی تحریک ملامت کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے۔ جوابدہی بل اس قانون کی جگہ لے گا کیونکہ معاملہ عدالتوں اور ججوں سے متعلق ہے ، ہم اس پر کسی طرح کی رائے زنی نہیں کرسکتے لیکن جج بھی دیش سے اوپر نہیں ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟