نیویارک کی سڑکوں پر لڑکوں کا اترنا اچھا اشارہ نہیں



Published On 6th October 2011
انل نریندر
دنیا کا سب سے زیادہ مہذب مانا جانے والا دیش امریکہ آج کل مندی کے دور سے گذر رہا ہے۔ اقتصادی مندی کا سامنا کررہے امریکہ میں اوبامہ انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف جنتا سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ نا برابری اور کارپوریٹ میں کرپشن کو لیکر سنیچر ایتوار کے دن سینکڑوں مظاہرین نے نیویارک کے برک لین پل پر قبضہ جما لیا جس سے ایتوار کو کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام ہوگیا۔ پولیس نے700 سے زیادہ مظاہرین کو حراست میں لینے کا دعوی کیا۔ نیویارک کے مالی بازار وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو مہم کے تحت پچھلے کچھ ہفتوں سے امریکہ کے کئی شہروں میں تحریکیں جاری ہیں۔ کئی مزدور تنظیموں نے اس مہم کی حمایت کی ہے۔ دو ہفتے پہلے مین ہیٹن کے ایک پارک میں مظاہرین نے قبضہ جما لیا۔ سنیچر کی صبح مین ہیٹن سے نکلی ریلی برکلن پل پر پہنچی تو وہاں ٹریفک جام ہوگیا۔ انتظامی حکام نے گھنٹوں تک پل کو بند رکھا۔ مظاہرین کا الزام ہے سرکار سرمایہ داروں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھ رہی ہے۔ کچھ جگہوں پر اسے سرمایہ داری نظام کے مخالفین کا ایک محاذ بھی بتایا جارہا ہے۔ بوسٹن میں بینک آف امریکہ کے دفتر کے باہر سنیچر کو زبردست مظاہرہ ہوا۔ رائٹ ٹو دی سٹی نے اس مظاہرے کا انعقاد کیا تھا۔
یہ مظاہرہ سرکار اور بینکوں کی پالیسیوں اور کارپوریٹ دلالوں کے خلاف تھا۔ ہزاروں لوگ اس میں شامل ہوئے۔ ارب ممالک میں جمہوریت کے لئے شروع ہوئی تحریکوں سے راہ حاصل کرتے ہوئے مہم کی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ کم سے کم 50 مظاہرین گرفتار ہوئے ہیں۔ اوکو پائی وال اسٹریٹ نے کہا کہ ہم سبھی نسلوں کے لوگ ہیں اور ہم سبھی اکثریت میں ہیں اور 99 فیصدی کے قریب ہیں۔ اب ہم چپ نہیں بیٹھیں گے۔ موجودہ اقتصادی اور سیاسی ماحول سے غیر مطمئن ہیں۔ اسی کا احتجاج کررہے ہیں۔
نیویارک کے یہ مظاہرین۔ مظاہرے کا موازنہ مصر کی راجدھانی قاہرہ کے تحریر چوک سے کیا جارہا ہے۔ جی ہاں ارب اسپرنگ نامی وہ تحریک شروع ہوئی جس نے مغربی ایشیا اور نارتھ افریقہ کے کچھ ملکوں میں پختہ تبدیلی کروا دی ہے۔ ظاہر ہے کہ وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو جیسے قریب 21 جگہ چل رہے ہیں۔ تحریک کا مقصد امریکی انتظامیہ کا تختہ پلٹنا تو نہیں ہے کیونکہ بھارت کی طرح امریکہ بھی جمہوریت کا گڑھ ہے بلکہ امریکہ کی بد انتظامی کی وجہ سے بڑے بینکوں کے مالکوں اور کارپوریٹ دنیا کے مالکان کے خلاف ہے جنہیں سرکار بحران سے نکلنے کے لئے پیکیج دے کر قرض کے بحران سے نکالتی ہے۔ سڑکوں پر اترے وہ لوگ ہیں جن کی پڑھائی لکھائی پوری ہورہی ہے مگر انہیں دور دور تک روزگار کا امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ نوجوان طبقہ سماج کے اس طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو قرض لیکر پڑھا ہے اور اب یہ قرض لوٹانے میں انہیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور نہ ہی ان کے خاندانوں کی اتنی حیثیت ہے کہ وہ قرض واپس کرسکیں۔ یہ طبقہ مانتا ہے کہ بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کا لالچ دیش کو ڈوبا رہا ہے اور سرکار انہی کی مدد کررہی ہے۔ یہ تحریک امریکن اقتصادی نظام کے لئے ایک چنوتی بن کر ابھری ہے۔ جس ڈھنگ سے یہ تحریک امریکہ کے شہروں میں پھیلی ہے اس سے صاف ہے کہ امریکہ کے موجودہ مالی اور اقتصادی ماڈل پہلے سے کہیں زیادہ بحران کا شکار نہیں ہے بلکہ جدید سرمایہ داری سسٹم پر بھی بحران ہے جس سے ہرشخص پریشان ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟