خوفناک سمت میں جارہے ہیں یہ بچے



Published On 6th October 2011
انل نریندر
ہمارے سماج میں خاندانی ماحول تیزی سے بدل رہا ہے۔ مہنگائی کے سبب آج ماں باپ دونوں کو کام کرنا پڑتا ہے تاکہ گھر کی دال روٹی اچھی طرح چل سکے۔ جن کو اقتصادی پریشانی نہیں ہے انہیں اپنے بچوں کے لئے فرصت نہیں ہے وہ اپنے ہی کاموں میں اتنے مصروف ہیں کہ بچوں پر ان کی توجہ نہ کے برابر ہے۔ اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بچوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آئے دن ہم سنتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے بچے نے یہ کردیا وہ کردیا۔ بچوں کی اب ٹی وی دیکھنے کی عادت زیادہ بن گئی ہے۔ طرح طرح کے سیریل دیکھتے ہیں۔ ان کے دماغ پر اس کا اثر پڑتا ہے اور کبھی کبھی تو وہ بڑی بڑی حرکتیں کرنے کی کوششیں کرتے ہیں جو سیریل میں دیکھتے ہیں۔ پچھلے دو دنوں میں تین ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں چھوٹے بچے ملوث ہیں۔ ان تینوں واردات میں ایک بات یکساں ہے بچوں کا نامناسب برتاؤ۔ آخر ہمارے بچے کس ذہنیت میں جی رہے ہیں نہ تو ان میں پیار ہے اور نہ ہی استاد کے تئیں احترام۔ پہلا واقعہ دہلی کے خیالات کا ہے اس میں 12 سال کے ایک بچے کے ہاتھ طمنچہ لگ گیا اور اس نے چور سپاہی کے کھیل میں اپنے دوست جو اس سے دو سال چھوٹا تھا کو گولی مار دی۔ بچے کی موت ہوگئی۔ پولیس نے اس لڑکے کو اصلاحاتی گھر بھیج کر دونوں بچوں کے والدین کو گرفتار کرلیا ہے۔
الزام ہے کہ گولی چلانے والے بچے کے والد نے ہی گھر میں یہ پستول رکھی تھی اور واردات کے بعد اسے نجف گڑھ نالے میں پھینک دیا تھا۔ ایسی رگھوویر نگر کے باشندہ راجیشور کا بیٹا سرکاری اسکول میں چھٹی کلاس میں پڑھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں بچے سے زیادہ قصوروار والد ہے جس نے کٹا (پستول) اسی جگہ رکھی تھی کہ بچہ آسانی سے اسے اٹھا کر لے گیا اور چور سپاہی کھیل تو سبھی بچے کھیلتے ہیں۔
بچوں کو کیا پتہ یہ اصلی بندوق ہے یہ نقلی؟ دوسرا قصہ خوریجی کا ہے یہاں کلاس میں من پسند سیٹ پر بیٹھنے کو لیکر ہوئے جھگڑے میں12 ویں کلاس کے ایک طالبعلم نے بڑی بے رحمی سے دانتوں سے ساتھی کا کان کاٹ دیا اور سڑک پر پھینک دیا۔ یہ واقعہ ریلوے کالونی کے باشندے اجے گوتم کا بیٹا نونیت ایک اسکول میں بارہویں کلاس کا طالبعلم ہے۔ تیسرا قصہ سہارنپور کا ہے۔ استاد کے ذرا سا ڈانٹے پر طالبعلم نے ان پر چاقو سے حملہ کرکے زخمی کردیا اور خود بھاگ کھڑا ہوا۔ طالبعلم کو اسکول سے نکال کر اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے۔ بڑ گاؤں کے آدرش انٹرکالج کے گیارہویں کلاس کے استاد جے دیو سنگھ کا پہلا گھنٹا تھا ، کلاس میں الٹی سیدھی پڑھی کرسیوں کو صحیح کرنے کوکہا تو طالبعلم سمت نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ استاد نے اسے ڈانٹا تو اس نے چاقو نکال کر اپنے استاد پر حملہ کردیا۔
ایسے واقعات آج سارے دیش میں ہورہے ہیں۔ تیزی سے بدلتے سماجی ماحول میں والدین کے پاس اپنے بچوں کے لئے اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ انہیں اچھی تربیت دے سکیں تاکہ وہ ٹیچروں کے تئیں احترام سکھا سکیں۔ بچوں کو کیا پتہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔انہیں آج کوئی سمجھانے والا نہیں ہے۔ رہی سہی کسر ٹی وی نکال دیتا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سسٹم میں بہتری ہونے کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟