فارمولہ 1- کارریس نے دہلی کے شہریوں کو جکڑا



Published On 5th October 2011
انل نریندر
آج کل دہلی کے شہریوں میں فارمولہ1- ریس فیور نے پوری طرح سے جکڑ لیا ہے۔ا س مہینے کے آخر میں نوئیڈا میں جے پی گروپ کے ذریعے کئے گئے ٹریک پر بھارت کی پہلی فارمولہ1- کار ریس ہوگی۔ فارمولہ کار1 کا جلوہ دکھانے کیلئے سپانسروں نے سنیچر کو نئی دہلی کے راج پتھ پر ایک اسپیشل شو رکھا۔ اس شو کو دیکھنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں شائقین راج پتھ کے دونوں طرف جمع ہو گئے۔ رفتار کو دیکھ کر لوگوں میں جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ہر کسی کی زبان پر رفتار لفظ تھا جبکہ ایک ڈرائیور ڈینیل ریکارڈو اپنی کمپنی فارمولہ1- (ایف1-) کار میں انڈیا گیٹ سے راشٹرپتی بھون کے درمیان ہوا سے باتیں کرتے ہوئے نکلے۔ فاسٹ رائڈرز کی ٹیم کے ذریعے موٹر سائیکلوں پر جیسے ہی اسٹنٹ ختم ہوئے تبھی انجن کے گرجنے کی آواز سے انڈیا گیٹ کے آس پاس کا علاقہ گونج اٹھا اور قریب 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ڈینیئل ریکارڈو اپنی ایک ایف1- کار میں بھیڑ کے سامنے سے نکل جاتے ہیں۔ اسپیڈ اتنی تھی کہ لوگ اپنے کیمروں کو کلک نہ کرسکے۔بھڑ کی طرف سے ایک ہی آواز کا شور گونج رہا تھا کہ ایک اور ایک اور۔ اسی طرح دو تین راؤنڈ لگائے۔ دہلی کے شہریوں کو اپنی زندگی میں پہلی بار ایف1- کار کو اتنے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔دنیا کی سب سے تیز رفتار مشینوں میں سے ایک ایف فارمولہ1- کار کی لاگت تقریباً10 سے12 کروڑ روپے بیٹھتی ہے۔ ایک ایف کار میں قریب 80 ہزار کل پرزے ہوتے ہیں۔ یہ ہی نہیں اس کی 15 فیصدی بنانے کی پہلی شرط ہوتی ہے اگر اس میں ایک فیصدی کمی رہ گئی تو کار تیار نہیں ہوگی۔ ایف 1- کار کا سب سے مہنگا حصہ اس کا انجن ہوتا ہے۔ فراری مرسڈیز ، میک لائن اور رینا کمپنیاں ایف انجن بناتی ہیں۔ ایف کار میں استعمال ہونے والا 2.4 لیٹر وی 8- انجن قریب4 سے5 کروڑ روپے میں بنتا ہے یعنی کار کی آدھی قیمت کا یہ انجن ہوتا ہے۔ اس کے بعد گیئر باکس اہم ہوتا ہے۔ 7 فارورڈ اور1 ریورس گیئر والا یہ باکس 1 کروڑ کی قیمت کے آس پاس ہوتا ہے۔ کار کا سب سے سستا حصہ ہوتا ہے اس کا ٹائر۔ یہ 50 سے60 ہزار روپے کا ہوتا ہے۔ ایف فارمولہ1- کار کی قیمت ایک عام ہیلی کاپٹر کی قیمت سے دوگنی ہوتی ہے۔ ہوائی جہاز کی طرح ایف کار میں بھی ایک بلیک باکس ہوتا ہے یہ اس کا نرور سینٹر یعنی دماغ ہوتا ہے یہ کار میں لگا ہوتا ہے ، تمام سینسروں سے جڑا ہوتا ہے اور کار کی چھوٹی چھوٹی حرکتوں کو ریکارڈ کرتا رہتا ہے۔ جہازوں میں لگے بلیک باکس کا کام حادثے کے بارے میں تکنیکی خامیوں کے بارے میں جانکاری دینا ہوتا ہے۔ جبکہ ایف 1- کے بلیک باکس کا کام ریس کے دوران کار کی نبض کو بتانا اور یہ تکنیکی طور پر کنٹرول روم سے جڑا ہوتا ہے۔ ایک طرح سے یہ کنٹرول روم کمپیوٹر سی سی کار کو کنٹرول کرنے کے دوران ایک کڑی کہا جاسکتا ہے۔ کار سے وابستہ تکنیکی باریکیوں کا تمام ڈاٹا یہ انٹرنیٹ جتنی تیزی سے بھیجتا ہے ریس کے دوران بلیک باکس سے پتہ چل جاتا ہے کب اور کس حالت میں انجن پر کنٹرول کیسا ہونا چاہئے۔ برآمد کردہ کروڑوں روپے کی لاگت والی یہ اسپیڈ مشین محض ایک ریس میں ہی اپنی عمر پوری کر لیتی ہے یعنی ایک ریس کے بعد اس کا کھیل ختم ہوجاتا ہے۔ ایف کار میں لگنے والے کروڑوں روپے کے انجن کی عمر بس ایک ریس تک محدود ہوتی ہے۔یعنی قریب300 سے350 کلو میٹر کی دوری کرنے کے بعد اس کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ ایک ریس میں 4 سے8 ٹائر بھی خرچ آتے ہیں۔ ہیں نہ یہ مہنگا سودا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟